پاکستان

سپریم کورٹ میں سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کی سماعت، حکومتی رپورٹ مسترد

supreme court of pakistan  سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے بلوچستان حکومت کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ملزموں کی گرفتاری کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جا رہے، سانحات کی اصل وجوہات جاننے کی کوشش نہیں کی جا رہی، رپورٹ واضح کرتی ہے کہ حکومت ملزموں کیخلاف کارروائی کے حوالے سے ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ رپورٹ محض وقت گزاری ہے۔ عدالت نے کہا کہ 1993ء سے اہل تشیع کو مارا جا رہا ہے، زائرین کو قتل کیا جا رہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے امن و امان کی بحالی میں بادی النظر میں ناکام نظر آتے ہیں۔ حکومت کے پاس تاحال امن کیلئے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ سانحات میں ملوث ملزموں کیخلاف سخت ترین کارروائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فرقہ واریت کو ہوا نہ دی جائے۔ امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے مستقل بنیادوں پر ہنگامی اقدامات کئے جائیں۔ اہل تشیع کا قتل عام روکا جائے۔ رپورٹ پڑھنے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ رپورٹ میں امن و امان کے قیام کیلئے جو اقدامات کئے گئے ہیں وہ ناکافی ہیں۔ شہداء4 کے ورثاء4 اور زخمیوں کو بہتر علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ لوگوں کو ریلیف نہیں دیا جا رہا۔ حکومت قانون کے مطابق متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی کرے۔ حکم میں کہا گیا کہ کوئٹہ سانحہ کیس میں ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان پیش ہوئے اور بتایا کہ عدالت کے حکم پر رپورٹس جمع کروا دی ہیں۔ ہم سکیورٹی کے حوالے سے اقدامات کرچکے ہیں اور مزید بھی کر رہے ہیں، وال چاکنگ ختم کرائی ہے اور اس پر پابندی لگا دی ہے، کیونکہ اس میں استعمال ہونے والا میٹریل دھماکے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ بلوچستان میں فرٹیلائزر تو بند نہیں کرسکتے اس کی مزید کیا پڑتال کریں گے۔ اندرونی چیک پوسٹیں بھی بنا دی ہیں۔ اے جی نے بتایا کہ ہزارہ ٹاؤن کی سکیورٹی بڑھا دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو جو بھی اقدامات کرنے ہیں وہ وسیع البنیاد ہونے چاہئیں۔ تمام علاقوں کو محفوظ کرنا ہو گا۔ لوگوں کو گھروں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اپنی کارکردگی دکھائیں اور اس میں ملوث لوگوں کو گرفتار کریں۔ آرٹیکل 9 کے تحت سب کو تحفظ دیں۔ یہ ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ یہ صرف عدالتی کارروائی کی حد تک رپورٹ ہے۔ اس کی اصل وجوہات تک پہنچیں کہ آخر یہ دھماکے کیوں ہوتے ہیں؟ اے جی نے کہا کہ آپریشن شروع ہیں ورثاء کو ریلیف دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے عدالتی کارروائی کی جا رہی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس حوالے سے عدالتی کارروائی وقت کا ضیاع ہے۔ اے جی بلوچستان نے کہا کہ تمام تر اقدامات بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر مل کر زخمی و دیگر فوت شدگان کے حوالے سے ریلیف سرٹیفکیٹ جاری کریں گے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ جو زخمی ہیں ان کے حوالے سے وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں۔ اب تک آپ کو پیسے دے دینے چاہئیں تھے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ انسان کی قیمت کون دے سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ ایک پرامن شہر تھا مگر اب اسے حادثات نے برباد کر دیا ہے، ریلیف کا مطلب اشک شوئی کرنا ہے۔ انسانی جانیں واپس نہیں آ سکتیں۔ چیف سیکرٹری سے پوچھیں کہ آخر زندگی کو کیسے بحال کیا جائے گا۔ ذوالفقار نقوی نے کہا کہ عدالت نے تین طرح کے اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا لیکن کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ 2000ء سے اب تک کوئی ایف آئی آر کا نامزد ملزم گرفتار نہیں ہوا۔ اے جی نے کہا کہ ملزم گرفتار بھی کئے ہیں اور مارے بھی ہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ کو سکینرز کی فوری ضرورت ہے تاکہ وہ ہر جگہ نصب کرکے جرائم کو روکا جاسکے، مستقبل کو تو محفوظ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا کیا پتہ کس کو مار کر آ جائیں، ملزموں کو گرفتار کریں۔ آپ یہ سب کیا کر رہے ہیں۔ آپ کا کام ملزموں کی گرفتاری ہے۔ کیا مذبح خانے میں رہ رہے ہیں مرگئے یا مار دئیے۔ مارنا عدالت سے ماوراء اقدامات ہیں اس کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ یہ سب اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا۔ آنے جانے کے راستے بھی متعین کئے جائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سب علاقے نو گو ایریا بناکر کیا سب کچھ بند کر دیں گے۔ اس سے تو لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ اے جی نے کہا کہ ہم نے عارضی طور پر راستے بند کئے ہیں۔ ایک فول پروف پلان بنایا جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ رپورٹ غیر تسلی بخش ہے۔ کمیونٹی کو سب سے الگ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس دوران سابق سینیٹر علامہ عباس کمیلی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پہلا دھماکہ جمعہ کی نماز کے دوران کیا گیا۔ جس سے کئی لوگ شہید ہوئے، میری کوئٹہ میں آمد روک دی گئی، میں کچھ تجاویز دینا چاہتا تھا، 1993ء سے ہمارے لوگوں کو مارا جا رہا ہے۔ اس کے بعد واقعات کی لمبی قطار ہے۔ زائرین کی بسیں جو ایران جا رہی تھیں واپس آ رہی تھیں، کو نشانہ بنایا گیا۔ ہر دفعہ وعدہ کیا گیا کہ زائرین کے تحفظ کیلئے اقدامات کئے جائیں گے مگر اس کے بعد پھر واقعات ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 3 دسمبر 2010ء میں القدس ریلی پر خودکش حملہ کیا گیا۔ 6 مئی 2011ء میں بچوں پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ فٹ بال کھیل رہے تھے۔ 16 مئی 2011ء کو زائرین کو مار دیا گیا۔ دسمبر 2012ء میں زائرین کی بسوں کو ٹائم بموں سے نشانہ بنایا گیا اور بسیں جلا دی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ متاثرین کو کوئی ریلیف دیا گیا؟۔ اے جی نے کہا کہ اس بارے میں انہیں علم نہیں ہے۔ علامہ عباس کمیلی نے کہا کہ ملزموں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ ہم سوات جیسا ایکشن چاہتے ہیں۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ بلوچستان کو فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ گورنر راج لگایا گیا پھر بھی دھماکہ ہو گیا اور سینکڑوں افراد مار دئیے گئے۔ ملزموں کیخلاف ٹارگٹڈ آپریشن چاہتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ فورس کے سامنے سب کچھ ہورہا ہے اور شیعہ برادری کو پارا چنار اور دیگر علاقوں میں مارا جا رہا ہے۔ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سینٹ میں بھی توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کی مگر اس کا جواب نہیں دیا گیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے سینٹ میں احتجاج کیا اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ علامہ عباس کمیلی نے کہا کہ کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ ملزموں کو گرفتار کرنے کی بجائے الٹا رہا کر دیا گیا۔ ہزارہ اور پنجابی لوگ کوئٹہ چھوڑ رہے ہیں ان کو کسی قسم کا تحفظ حاصل نہیں ہے، ہم عملی اقدامات چاہتے ہیں۔ کوئٹہ کے ایم این اے ناصر شاہ نے کہا کہ وال چاکنگ ختم کرنے سے ملزم ختم نہیں ہوں گے۔ جو آپریشن کیا گیا جس میں سنی تحریک کے لوگوں نے ہڑتال کی اور کارروائی کی گئی۔ یہ کیا کارروائی مجرموں کیخلاف کی جارہی ہے یا بے گناہ لوگوں کو فرقہ واریت کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ کوئٹہ میں عجیب فضاء پیدا ہوچکی ہے۔ کسی کی دل آزاری نہیں چاہتے چاہے وہ سنی تحریک ہو۔ حکومت کارروائی میں سنجیدہ نہیں ہے۔ عدالتی احکامات جاری کئے گئے، وعدے بھی ہوئے، کارروائی نہیں کی جائے گی صرف اتنا بتایا جائے گا کہ فورس بڑھا دی ہے۔ میری ایک تجویز ہے کہ ایک سکیورٹی بورڈ بننا چاہیئے۔ کور کمانڈر، حساس اداروں کے چیفس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مل بیٹھ کر کارروائی کریں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کارروائی سے نفرت بڑھے گی اور یہ نفرت پورے پاکستان میں پھیل جائے گی۔ جس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ یہ عدالت ہماری آخری منزل اور راستہ ہے۔ کوئٹہ میں آگ لگی ہے اور یہ سچ نہیں بول رہے۔ ہم پرانی پالیسی پر چل رہے ہیں۔ نئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ کوئٹہ میں ہونے والے اقدامات کا پورے ملک سے ہے۔ بڑے بڑے لوگوں کو اس میں ملوث کیا جائے اور پالیسی مرتب کی جائے۔ ہم اپنی ماں کی طرح اس ملک سے محبت کرتے ہیں۔ علامہ عباس کمیلی نے بتایا کہ سانحہ میں زخمیوں کو کراچی لے جایا گیا اور واپس نہیں لایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پچاس سے زائد زخمی اب بھی کراچی میں موجود ہیں۔ اس کا مستقل حل نکالیں۔ اس کی اصل وجوہات کا پتہ چلائیں۔ فرقہ واریت نہ پھیلائیں۔ جرائم کو ختم کرنے کیلئے اس کی تہہ تک جانا پڑے گا۔ کوئی بدامنی نہیں چاہتا ہر کوئی امن چاہتا ہے۔ رپورٹ سے ہرگز مطمئن نہیں۔ کچھ دن کام کرکے آپ پھر مطمئن ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ سالوں سے بس ایک ہی کام کر رہے ہیں مگر سانحات کی روک تھام کیلئے کوئی خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ اللہ نے عقل دی اس کو استعمال کریں اور حادثات کو روکنے کیلئے اقدامات کریں۔ عدالت نے چیف سیکرٹری، ایف سی، آئی جی بلوچستان سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 6 مارچ تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button