پاکستان

گورنر راج کی مخالفت کرنیوالوں کو آئندہ الیکشن میں ملت تشیع مسترد کردیگی علامہ سبیل حسن

sabel hussainپشاور میں شیعہ شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ نہ رکی تو بھرپور احتجاج کا راستہ اختیار کرینگے، علامہ سبیل حسن
مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے سیکرٹری جنرل علامہ سبیل حسن مظاہری کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں نافذ گورنر راج کی مخالفت مظلومین کوئٹہ سمیت ملک کے ہر باشعور شہری کیلئے تکلیف دہ ہے، اگر یہ لوگ مظلوموں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے تو مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ پشاور میں اہل تشیع شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ نہ رکا تو بھرپور احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے۔ صوبائی حکومت حالیہ قتل و غارت گری کے واقعات کی تحقیقات کیلئے اعلٰی سطحی جوڈیشل کمیشن قائم کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکرٹری امور جوانان علامہ سید مجتبٰی حسین الحسینی، صوبائی میڈیا کوآر ڈی نیٹر ارشاد حسین بنگش اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پشاور ڈویژن کے جنرل سیکرٹری توقیر یوسف بھی ان کے ہمراہ تھے۔

علامہ سبیل حسن نے کہا کہ پاکستان اس وقت شدید دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے، اور بےگناہ افراد کا آئے روز خون بہایا جا رہا ہے۔ اس دہشتگردی اور بریریت کی ایک مثال 10 جنوری کو کوئٹہ کے علاقہ علمدار روڈ پر دیکھی گئی۔ جہاں سو سے زائد افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ جبکہ اس سے قبل بھی کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع کو کئی سال سے ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور محض گذشتہ سال 700سے زائد بے گناہ اہل تشیع شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ سانحہ کوئٹہ نے پاکستان کے ہر شہری کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور ہر باضمیر شخص اس ظلم عظیم پر غمزدہ نظر آیا۔ اس سانحہ کے بعد عوام کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اور کوئٹہ سمیت پاکستان بھر میں پرامن احتجاجی دھرنے دیئے گئے، جو نظم و نسق اور امن پسندی کی جیتی جاگتی مثال آپ تھے، جس کا ذکر صحافی حضرات نے بھی انتہائی تحسینی انداز میں کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس تاریخی اور پرامن احتجاج میں صرف اہل تشیع ہی شامل نہیں تھے بلکہ درد دل رکھنے والے مختلف مکاتب فکر کے علماء اور عوام سمیت سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے بھی مظلومین کوئٹہ کے دکھ و درد کو بانٹتے ہوئے ان دھرنوں میں شرکت کی۔ اس کے علاوہ صحافی برادری نے بھی اپنی قومی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اس احتجاج کی مناسب کوریج کی۔ علامہ سبیل حسن نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ اس پرامن احتجاج کے نتیجے میں وفاقی حکومت نے کوئٹہ کے مظلومین کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے بلوچستان میں گورنر راج نافذ کیا اور اس نااہل، کرپٹ اور مسخرے وزیراعلٰی کو برطرف کیا۔ حکومت کے اس اقدام کو ہر سیاسی و مذہبی جماعت حتی کہ حکومت میں شامل جماعتوں نے بھی خوش آئند اور بلوچستان مسئلہ کا راہ حل قرار دیا۔ تاہم ایک سیاسی و مذہبی جماعت جو کہ بلوچستان حکومت کا حصہ تھی نے اس گورنر راج کی نہ صرف مخالفت شروع کر دی، بلکہ اس اقدام کیخلاف باقاعدہ تحریک چلانے کا بھی اعلان کردیا۔

انکا کہنا تھا کہ اس مذہبی و سیاسی جماعت کے اکابرین کا یہ فیصلہ تمام پاکستانیوں اور باالخصوص ان مظلومین کیلئے انتہائی تکلیف دہ تھا، جو چار روز تک شدید سردی اور بارش میں اپنے شہداء کے جنازوں کو سینے سے لگائے بیٹھے رہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ان شخصیات سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر یہ لوگ مظلوموں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے تو ان کے مطالبات کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں۔؟ کیا دنیاوی اقتدار کسی انسانی جان سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے؟ کیا ان عوامی نمائندوں کو جمہوری انداز میں اقتدار سے الگ کرنا جرم ہے جو اپنی ذمہ داریاں یکسر بھلا کر عیاشیوں میں مصروف ہوں؟ کیا پاکستان میں ظلم کے شکار ہونے والے افراد پر اپنا حق مانگنے پر کوئی پابندی ہے۔؟

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس پریس کانفرنس کے ذریعے ان نادان دوستوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ یہ غیر جمہوری مطالبہ اور تحریک ترک کرکے مظلوم عوام کے دکھوں کا مداوا کریں اور تعصب کی عینک اتار کر عوام کے حقیقی نمائندے بنیں۔ بصورت دیگر آئندہ الیکشن میں ایسے افراد اور جماعتوں کو ہماری ملت تشع یکسر مسترد کر دے گی۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دو ماہ سے صوبائی دارالحکومت پشاور میں بھی امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر ہوگئی ہے۔ اور گذشتہ دنوں یہاں اہم اہل تشیع شخصیات کو نشانہ بنایا گیا۔ جس کے نتیجے میں ابرار حسین، سید ریاض حسین شاہ اور احتشام علی صاحب پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ جس کے نتیجے میں ابرار حسین اور ریاض حسین شاہ صاحب شہادت منصب پر فائز ہوگئے۔ ہم ان حملوں کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اس سازش کو بے نقاب کرے۔ اور اعلٰی سطحی جوڈیشل کمیشن تشکیل دے کر سابق واقعات کی تحقیقات کرتے ہوئے مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے فوری طور پر اس معاملہ کی جانب توجہ نہ دی تو ہم دیگر جماعتوں کیساتھ ملکر احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 12 تا 17 ربیع الاول کو ہفتہ وحدت کے طور پر منایا جائے گا، ہم سب کو اس ہفتہ کے دوران وحدت کو فروغ دینا ہوگا اور میڈیا سے وابستہ افراد بالخصوص اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہفتہ وحدت کی مناسبت سے ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا کے زیراہتمام صوبہ بھر میں مختلف پروگرامات کا بھی انعقاد کیا جائے گا۔ اس موقع پر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پشاور ڈویژن کے جنرل سیکرٹری توقیر یوسف نے کہا کہ آئی ایس او بھی امام خمینی (رح) اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے فرمان کے مطابق ہفتہ وحدت بھرپور انداز میں منائے گی اور اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ اپنے تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر متحد ہوجائے

متعلقہ مضامین

Back to top button