عراق

امریکی نواز ایاد علاوی کی فتح ۔عراقی سیاسی اتحادوںنے مسترد کر دی

shiite_iraq_election_result_announcement-300x202

عراق کے پارلیمانی انتخابات کے حتمی نتائج کے مطابق سابق وزیراعظم ایاد علاوی جو کہ صدام کے قریبی ساتھیوں میں تصور کئے جاتے ہیں ، کے اتحاد العراقیہ نے پارلیمنٹ میں وزیرِ اعظم نوری المالکی کے اتحاد کے مقابلے میں دو نشستیں زیادہ حاصل کرکے پارلیمانی انتخابات جیت لیے ہیں۔جبکہ دوسری جانب عراقی کے اکثر انتخابی اتحادوں بشمول صدر جلال

 طالبانی اور وزیر اعظم نوری المالکی کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی اور فراڈ کا الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔عراقی رہنما ووٹوں کی از سر نو گنتی کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق کمپیوٹر ائزڈ گنتی کے دوران دھاندلی کے واضح شواہد سامنے آئے ہیں۔

 

شیعت نیوز مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق سات مارچ کو ہونے والے انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے حکام نے کہا کہ علاوی کے اتحاد کو موجودہ وزیر اعظم نوری المالکی پر دو سیٹوں کی سبقت ہے۔ نوری المالکی کے اتحاد کو کو 89 جبکہ ایاد علاوی کے گروپ کو 91 نشستیں حاصل وئی ہیں۔

325 نشستوں کی پارلیمنٹ میں ان دو بڑے اتحادوں کے بعد تیسرے نمبر پر عراق کی شیعہ اکثریت کا عراقی قومی اتحاد ہے ، جس کے اُمید وار 70 نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں۔اور چوتھے نمبر پر کُرد پارٹیوں کے کردستان اتحاد نے 43 نشستیں حاصل کی ہیں۔

جمعے کے روز جن نتائج کا اعلان کیا گیا ہے ، اُن کے مطابق ایاد علاوی کے اتحاد العراقیہ نے 91 نشستوں پر کامیاب ہوا ہے اور وزیرِ اعظم نوری المالکی کے اتحاد دولت القانون نے89 نشستیں حاصل کی ہیں۔ وزیرِ اعظم نوری المالکی نے جمعے کے روز کہا ہے کہ وہ اِن نتائج کو قبول نہیں کریں گے۔المالکی نے یہ نتائج رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔جبکہ دوسری جانب انتخابات میں دھاندلی کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد سے اب تک عراق کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور صوبوں میں ہزاروں افراد نے دھاندلی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

سعودی اور امریکی نواز ایاد علاوی اور صدامی اتحادالعراقیہ کے امید واروں کی حیرت انگیز کامیابی نے نہ صرف ان کو بلکہ سیاسی مبصرین کو بھی ششدر کر دیا ہے ۔لیکن امریکی اور سعودی نواز اتحاد کے لئے حکومت بنانے کا مرحلہ انتہائی دشوار گذار ثابت ہو گا۔

عراق میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائیندےایڈ مَیلکرٹ نے کہا ہے کہ سات مارچ کے انتخابات قابلِ اعتبار تھے اور انہوں نے تمام پارٹیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ نتائج کو قبول کر لیں۔عراق میں امریکہ کے سفیر کرسٹوفرہِل اور عراق میں چوٹی کے امریکی کمانڈر جنرل رے اوڈَیرنو، دونوں نے اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتخابات کے اُن مبصرین سے اتفاق کرتے ہیں جنہیں وسیع پیمانے پر دھاندلی کی کوئی شہادت نہیں ملی۔

 

بغداد میں موجود شیعت نیوز کے نمائندے کے مطابق ایاد علاوی کی برتری اتنی کم ہے کہ انہیں مخلوط حکومت بنانی پڑے گی جس میں کئی ہفتے تک کا وقت لگ سکتا ہے۔جبکہ سعودی نواز سابق بعثی ایاد علاوی اور العراقیہ کے دیگر ارکان اس وقت دیگر سیاسی اتحادوں کے ساتھ حکومت کے قیام کے لئے مذاکرات میں مصروف ہیں تاہم صدام کے ساتھی ہونے کے سبب اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ شیعہ اور کرد جماعتوںکے تعاون سے محروم رہیں گے با وجود یہ کہ ایاد علاوی خود بھی شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن صدام دور میں عراقی عوام پر ہونے والے خونی مظالم پر عراق کے شیعہ اور کرد اکثریت ان کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ۔

عراقی آئین کے مطابق عراق کا صدرانتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو تیس دن کے اندر حکومت بنانے کی دعوت دیتا ہے اور اس کی حکومت بنانے کے لئے حاصل تعداد کے حصول میں ناکامی پر دوسری جماعت کے رہنما کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ حکومت قائم کرنے کے لئے مطلوبہ تعداد حاصل کرے۔

سیاسی مبصرین کا دعویٰ ہے کہ سعودی اور امریکی نواز ایاد علاوی کے لئے حکومت کا قیام ایک مشکل مرحلہ ہے ۔کیونکہ نوری المالکی کے اتحاد سمیت شیعہ جماعتوں کے اتحاد عراقی قومی اتحاد اور کردستان الائنس کی جانب سے انھیں حمایت نہیں مل سکتی اوران جماعتوں کی حمایت کے بغیر ایاد علاوی کے لئے حکومت قائم کرنا ایک ناممکن مسئلہ ہے۔کیونکہ حکومت کے قیام کے لئے کم ازکم ایک سو تریسٹھ (163)ارکان پارلیمنٹ کی حمایت ضروری ہے ۔

 

 

متعلقہ مضامین

Back to top button