عراق

عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی کا رد عمل: وھابی امام جمعہ کی جانب سے آیت اللہ العظمی سیستانی کی توہین پر مذمتی بیان


ayatullahsistani-150x150

عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی نے شیعیان عراق کی مرجعیت کی توہین سے نفرت و انزجار کا اعلان کیا ہے۔

پیغام کا متن:

 

بِسْمِ اللّہ الرَّحْمـَنِ الرَّحِيمِ

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّہ مِنْ عِبَادِہ الْعُلَمَاءُ (سورہ فاطر آیت 28)

اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء اور دانشور ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔

شیعہ روحانیت اپنی افتخار آمیز تاریخ کے دوران علمائے عامل اور عرفائے کامل کی نورانیت سے منور رہی ہے جنہوں نے اپنے زمان و مکان کی مناسبت سے اپنے شرعی فرائض سرانجام دیئے ہیں؛ وہ اکابرین جو اہل بیت عصمت وطہارت کی تعلیمات اور ان کی خاص عنایات و توجہات سے فیض حاصل کرکے طریق الہی پر گامزن سالکین کے لئے روشن چراغ تھے۔ ان میں سے بعض کے چہرے دوسروں سے زیادہ نمایاں تھے؛ یقیناً آیت اللہ العظمی سیستانی ادام اللہ ظلہ ان ہی اکابرین اور شائستہ اور روشن و نمایاں شخصیات میں سے ہیں۔

ان کی منفرد شخصیت نصف صدی سے زائد عرصے کے دوران نجف اشرف کے حوزہ علمیہ اور عراق کے سیاسی و سماجی میدانوں میں خاص طور پر نمایاں رہی ہے۔ اس عالم دانا کی مرکزی اور مؤثر حیثیت عراقی معاشرے کی موجودہ پرنشیب و فراز صورت حال میں اتنی نمایاں ہے کہ اس کا انکار ممکن نہیں ہے۔

ابھی تک بعثی حکمرانوں کے خلاف احتجاج کے طور پر ان کی چارسالہ خانہ نشینی اور گھر سے باہر نہ نکلنا، اور امریکی جارحین کے تسلط کے بعد ان کے نہایت دانشمندانہ اقدامات مکتب علوی کے پیروکاروں کے قلوب کو نشاط و افتخار سے سرشار کررہے ہیں؛ چند قومیتی جارحین کے ہاتھوں عراق پر قبضہ ہوجانے کے بعد ان کی عراق میں باشکوہ واپسی اور کئی میلین عراقی پیروان اہل بیت عصمت و طہارت (ع) اور شیعہ مراجع تقلید کی طرف سے ان کا عظیم تاریخی استقبال عراق کی دکھی ملت کے لئے ایک شیریں یادگار کے طور پر اس قوم کے حافظے میں ثبت ہے۔ اس وقت بھی ان کی مرکزی، معتدل اور مؤثر حیثیت تمام قومی اور علاقائی بحرانوں میں اہم اور قابل احترام سمجھی جاتی ہے۔

اب یہ کیسی بات ہے کہ ایک پست اور رذیل شخص اس عالیقدر مرجع تقلید کی حرمت شکنی کے ذریعے اپنے کھوکھلے اور بے قدر و قیمت مقاصد کے حصول کی کوشش کرتا ہے؟ افسوس کا مقام ہے کہ یہ شخص شہر ریاض کی امامت جمعہ اور خادمین حرمین شریفین کی گماشتگی کے منصب پر بھی فائز ہے! کیا آیت اللہ سیستانی سے یمن کے بیگناہ بچوں اور خواتین کے قتل عام کے سلسلے میں منصفی ـ حَکَمِیَّت ـ کی درخواست اس شخص کے لئے اتنی سنگین تھی کہ اس نے اس بزرگوار شخصیت اور ذاتی حیثیت پردہشت گردانہ حملہ کرکے اس موضوع کو دگرگون اور منحرف کرنے کی کوشش کی ہے؟ کیا اس طریقے سے تاریخ کے تمام مراحل میں رونما ہونے والے بحرانوں میں شیعہ مرجعیت کے کردار کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے جبکہ ان کا کردار صلح و آشتی، محبت، اتفاق و اتحاد اور مصالحت و مسالمت کا کردار ہے۔ یقیناَ حضرت آیت اللہ العظمی سیستانی بھی اس قاعدے سے مستثنی نہیں ہیں اور مختلف فرقوں کے پیروکاروں کی طرف سے ان کیطرف رجوع اور مختلف اقوام اور مکاتب کی طرف سے ان کی حکمیت پر اعتنماد و اطمینان کا اظہار ناقابل انکار حقیقت ہے؛ اور یہ ایسی حقیقت ہے جو عراقی تاریخ کے حالیہ خونی بحرانوں اور شیعہ سنی جنگ شروع کرانے کی غرض سے استکبار و استعمار کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے دوران اپنا مثبت اثرات ثابت کرکے دکھا چکی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ خادمین حرمین شریفین جمعہ و جماعت کی امامت اور افتاء جیسے مناصب پر جانچ پرکھ کر افراد کا تعین کریں کیونکہ یکطرفہ اور انتہاپسندانہ خیالات کے اظہار کا نقصان خود ان کا دامن بھی پکڑ ہی لے گا جیسا کہ اس سے قبل مسجد الحرام کے امام جماعت کی طرف سے شیعیان اہل بیت علیہم السلام پر رافضی اور زندیق جیسے بھونڈے اور نامعقول الزامات لگائے جانے کے نتیجے میں اس کو اپنے موقف کا بھاری معاوضہ ادا کرنا پڑا۔

عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی ـ خاندان نبوت و رسالت (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کے مکتب کی ترویج کا بیڑا اٹھانے والی تنظیم کی حیثیت سے ـ ان بزرگوں کی تعلیمات پر عملدرآمد کرتے ہوئے مفاہمت اور باہمی محبت کی فضا کے قیام کی راہ پر مسلسل تأکید کرتے ہوئے آئی ہے اور اس کی رائے یہ ہے کہ تفرقہ اور اختلاف کا طبل پیٹنے سے نہ صرف عظیم اسلامی معاشرے کے مسائل و مشکلات کے حل میں کوئی مدد نہیں ملتی بلکہ اس عمل کے نتیجے میں دشمنان اسلام ـ بالخصوص عالمی وسائل غارت کرنے والی استعماری طاقت امریکہ اور غاصب اسرائیل سمیت دیگر سوپرکریمنلز (طاقتور مجرمین) کے لئے حالات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے مواقع میسر آئیں گے۔ اس قسم کے اقدامات اٹھانا ـ خاص طور پر تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک قابل احترام اعلی ترین مذہبی اور معنوی شخصیات کی توہین اور ہتک حرمت ـ بے شک ایک بھونڈا اور قابل ملامت و مذمت فعل ہے، بالخصوص اگر یہ شخصیت آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کی ذات ہو۔

عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی قرآن کریم کے نورانی کلام کے مطابق کفر کے راہنماؤں کی حرمت شکنی کو بھی پسند نہیں کرتی چہ جائیکہ اگر یہ بے حرمتی اور بدزبانی ایک خدمت گزاراور اسلامی معاشرے کے لئے مفید شخصیت کے حق میں روا رکھی جائے؛ جن کا خدمت اور جانفشانی سے بھرپور ریکارڈ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے مسلم اور ناقابل انکار ہے۔

آیت اللہ العظمی سیستانی کی عظیم شخصیت اور قابل قدر حیثیت ایسی ہرگز نہیں ہے کہ ایک ذلیل اور بے قدر و قیمت اور نامعقول اور پست شخص کے تفرقہ انگیز کلام سے متأثر ہوکر مخدوش ہوجائے مگر اس طرح کی رسموں کی ترویج کا نتیجہ نہایت خوفناک اور ناخوشائند ہوگا۔

والسلام على من اتّبع الہدى

 عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی

5 جنوری 2010

متعلقہ مضامین

Back to top button