ایران

جنوبی محاذ پر رہبر معظم انقلاب اسلامی کا خطاب

shiite_rehber_khaminai_southern_iran-300x200

بسم‌اللَّہ‌الرّحمن‌الرّحيم‌

الحمدللَّہ ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على الہ الأطيبين الأطہرين المنتجبين الہداة المہديّين المعصومين سيّما بقيّةاللَّہ فى الأرضين.

اس تاریخی مقام پر آپ بھائیوں اور بہنوں کے درمیان حاضری کا مقصد پہلے درجے پر مجاہدین اور شہداء کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرنا ہے کہ دفاع مقدس اور ٹھونسی ہوئی جنگ کے دوران یہ سرزمین ان کی دلیریوں اور جانفشانیوں اور ان کی

 عظیم کوششوں کی گواہی دیتی ہے۔

 

دوسرے درجے میں خوزستان کے عزیز عوام اور ان بھائیوں اوربہنوں کا شکریہ ادا کرنا مقصد ہے جو اس خطے میں ـ حساس ترین وقت اور دشوار ترین حالات میں ـ ایک عظیم آزمائش سے سرخرو ہوکر عہدہ برآ ہوئے ہیں۔ ملت ایران کے دشمنوں کی سوچ خوزستان کے عزیز عوام کے بارے میں کچھ اور تھی اور ان کی سوچ سے بالکل مختلف نتائج برآمد ہوئے۔ مجاہد نوجوانوں کے صف اول پر وہ فداکار اور جان نثار افراد تھے جو اسی آب و خاک کے فرزند اور اسی خطے کے پروردہ تھے۔ خوزستان کے عزیز عوام، ان کی خواتین، ان کے مرد.

میں جنگ کے ایام میں ان دیہاتوں میں گیا جو بعثیوں کے ستم کا شکار ہوئے تھے؛ میں گیا اور قریب سے ان لوگوں کی صورت حال اور ان کے حوصلے ما مشاہدہ کیا. مجاہد، اور بہادر ملت اور دین اسلام سے ان کی پیوستگی ـ جس کا پرچم ایران میں بلند کیا گیا تھا ـ کچھ ایسی تھی کہ بعثی دشمن قومی اور نسلی وسوسوں کے ذریعے اس مستحکم رشتے کو کمزور کرنے میں ناکام ہوگئے تھے۔ لہذا اس خطے میں ہماری حاضری ایک لحاظ سے عزیز خوزستانی عوام کی قدردانی ہے۔

تیسرا سبب آپ مسافرین کی قدردانی ہے کہ جو ملک کے دور و نزدیک کے علاقوں سے ان علاقوں میں آئے ہیں آپ نے اپنے قدموں سے، اپنے دلوں سے ان نوجوانوں اور ان مَردوں، ان دلیروں کے ساتھ ـ جن کی فداکاریوں کی گواہ یہی سرزمین ہے ـ اپنا رشتہ اور پیوستگی دکھائی؛ خواہ اس محاذ پر ـ یعنی فتح المبین کے علاقے میں ـ خواہ دوسرے محاذوں پر، چاہے خوزستان میں چاہے دیگر صوبوں کے جنگی علاقوں میں،: جیسے صوبہ ایلام، صوبہ کرمانشاہ، صوبہ کردستان. عوام نے، ملکی عوام نے گذشتہ چند برسوں سے اس نہایت نیک اور قابل تعریف روایت کی بنیاد رکھی ہے کہ وہ آئیں سال کے ان ایام میں اور ان علاقوں کی زیارت کریں. یہاں زیارتگاہ ہے۔

عزیز نوجوانو! میرے عزیز فرزندو! آپ میں سے اکثر افراد اس زمانے میں موجود نہ تھے اور ان تلخ اور دشوار ایام کو نہیں دیکھ سکے ہیں؛ یہ خوبصورت دشت و دمن، یہ دیدہ نواز منظرہ، یہ زرخیز زمین، ایک دن آپ کے دشمنوں کے پیروں تلے تھی؛ بعثی ریاست کے گماشتوں نے اسی سرزمین میں ـ جس کا تعلق آپ سے ہے ـ ایسا جہنم بپا کیا تھا جس کو دیکھ کر انسان کو مختلف پہلوؤں سے افسوس ہوتا تھا. منجملہ یہ کہ انھوں نے کس طرح اس خوبصورت سرزمین اور خوبصورت فطری ماحول کو آگ اور دوزخ میں تبدیل کردیا تھا. جنگ کے مصائب بھرے ایام میں ـ فتح المبین کے نام سے ہونے والی کاروائی سے قبل ـ میں نے اوپر واقع شمالی علاقے سے اس دشت کا یہ وسیع منظرہ دیکھا تھا؛ یہ یاد کبھی میرے دل سے مٹتی نہیں ہے کہ دشمن کی افواج کے کئی ڈویژن اس وسیع علاقے میں منتشر تھے؛ آپ کی مٹی اور آپ کی زمین کو اپنے جوتوں تلے روند رہے تھے اور ملت ایران کی تذلیل کا ساماں کررہے تھے۔ جن لوگوں نے اس ملک کو نجات دلائی وہ یہی فداکار اور مجاہد نوجوان تھے یہی بسیج، یہی سپاہ پاسداران، یہی مسلح افواج، یہی جان نثار مجاہدین، جن کے پسماندگان آج بھی ملک کے مختلف شعبوں میں موجود اور سرگرم عمل ہیں؛ ان میں سے بھی بعض شہید ہوگئے ہیں “فمنہم من قضى نحبہ و منہم من ينتظر و ما بدّلوا تبديلا” (1)

میرے عزیزو! اس صحرا میں منعقدہ اس اجتماع میں حاضر نوجوانو! اور ملک کے تمام نوجوانو! جان لو کہ دفاع مقدس کے ایام کی نوجوان نسل ہوشیاری اور کیاست، فداکاری اور قربانی، اور عزم راسخ اور مضبوط ارادے کی برکت سے ملک کو دشمن سے بچانے میں کامیاب ہوئی۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے دشمن کا ہدف ملک کا ایک حصہ ہمارے ملک سے الگ کرکے ملت ایران کی تحقیر و تذلیل کے اسباب فراہم کرنا تھا۔ وہ ملت کو ذلیل کرنا چاہتے تھی اور ملت کے مال و جان و ناموس پر مسلط ہونا چاہتے تھے۔ لیکن وہ کون تھا جس نے دشمن کو کامیاب نہیں ہونے دیا؟ فداکار نوجوان مجاہد، وہ عزم راسخ وہ قوی ایمان، تھا جس نے دشمن کی پوری قوت کے سامنے ڈٹ کر اسے شکست دے دی۔ امریکہ دشمن کی مدد کررہا تھا؛ اس روز کا سوویت یونین دشمن کی مدد کررہا تھا اور وہ تمام یورپی ممالک ـ جو آج دنیا میں انسانی حقوق کا راگ الاپ رہے ہیں ـ خبیث دشمن کی مدد کررہے تھے تا کہ وہ قتل عام کرے اور نیست و نابود کرے زمین اور اہل زمین کو، زمین اور اہل زمین کو جلا کر راکھ کردے۔ وہ بے پرواہی سے یہ کام کرتا تھا مگر آپ کے نوجوانوں اور اس ملت کے نوجوانوں نے اس کو ایسا کرنے کی اجازت نہ دی۔ اسی “دشت عباس” کے علاقے میں، اسی وسیع و عریض دشت میں، اس طویل علاقے میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اترے اور اپنے عزم راسخ کے ذریعے دشمن کو مغلوب کردیا، اس کی کمر توڑ کر رکھ دی اور اسے ذلیل کردیا اور اس سازش کو ناکام بنادیا جس پر عمل درآمد کرنے میں تمام استکباری طاقتیں شریک، سہیم اور ملوث تھیں۔

میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ اے عزیز نوجوانو! ہر زمانے میں صورت حال ایسی ہی ہے؛ ہمیشہ آپ کا عزم راسخ، آپ کی ہوشمندی اور بصیرت، آپ کی استقامت، قطعیت اور فیصلہ کن عزم، آپ کی شجاعت، آپ کے تمام دشمنوں کو ـ خواہ وہ بظاہر طاقتور ہی کیوں نہ ہوں ـ شکست و ناکامی سے دچار کرسکتی ہے۔ آج بھی یہی صورت حال ہے؛ کل بھی یہی حال ہوگی۔ ملت ایران اگر دنیاوی اور اخروی سعادت کے عروج پر فائز ہونا چاہتی ہے ـ جبکہ ایسا کرنا چاہتی ہے اور ان شاء اللہ اس عروج کو حاصل کرکے رہے گی ـ تو اس کا راستہ شجاعت، بصیرت، تدبیر، عزم راسخ، مستحکم ارادہ ہے، عورتوں کی جانب سے بھی اور مردوں کی جانب سے بھی؛ اور یہ سب ایمان پر استوار ہو اسلامی ایمان پر مبنی ہو. ہمارے مجاہدین کے دلوں میں اس عزم و ہمت کا سبب ان کا قلبی ایمان تھا. وہ دین پر، خدا پر، قیامت پر، اور اللہ کے سامنے اپنی انسانی ذمہ داری پر یقین و ایمان رکھتے تھے؛ یہ یقین و اعتقاد جس قوم اور جس معاشرے میں ہوگا اس کو دشمن کی زدپذیری سے محفوظ رکھتا ہے اور ایسا معاشرہ استقامت کرسکتا ہے۔

عزیز بھائیو اور بہنو! آج ہم مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کے ایام سے سے کہیں زیادہ طاقتور اور کہیں زیادہ آگے ہیں، عالم اسلام میں ملت و ایران کا اثر و رسوخ کہیں زیادہ وسیع ہے؛ آج ہم توانا تر ہیں۔ ملت ایران نے یہ توانائی اور یہ قوت و استحکام استقامتوں کی برکت سے حاصل کیا ہے؛ آج بھی سازشیں زیادہ ہیں؛ لیکن ملت ایران اپنی استقامت کے ذریعے دشمن کی سازشوں کا مذاق اڑارہی ہے اور اپنے راستے پر کامیابی اور ثابت قدمی کے ساتھ گامزن ہے۔

جو چیز زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ ایرانی قوم اس حساس تاریخی مرحلے ـ یعنی دفاع مقدس کے دور ـ کو ہرگز نہ بھلائے اور مسلط کردہ جنگ کے رنج و مشقت مگر افتخار و اعتزاز سے سرشار برسوں کو نہ بھولے۔ یہاں آنا، یہ خراج عقیدت و تحسین پیش کرنا، یادیں تازہ کرنے کے لئے تقریبات کا انعقاد، یہ سب ان یادوں کو ذہنوں میں زندہ رکھنے کے سلسلے میں ممد و معاوں ہوسکتا ہے۔ میں “راہیان نور” کی اس حرکت سے بہت خوش ہوں جو چند سال قبل شروع ہوئی ہے اور اس کو ایک پربرکت حرکت سمجھتا ہوں اور میرا یہ خیال ہے کہ (تاریخ کا) یہ حساس مرحلہ ہمارے لئے ایک تجربہ ہے۔ آپ ـ آج کے نوجوان ـ اگر اس روز بھی ہوتے اس میدان میں، تو یقینا عزم راسخ لے کر اس میدان میں حاضرب ہوتے۔

آج بھی علم و سائنس کے میدان میں، سیاست کے میدان میں، محنت و کوشش کے میدان میں، قومی یکجہتی اور بصیرت کے میدان میں، آپ نوجوانوں نے اپنی پامردی اور استقامات ثابت کرکے دکھائی ہے۔ کبھی کبھار فوجی لڑائی فکری جنگ سے زیادہ آسان ہوتی ہے، سیاسی میدانوں میں جنگ سے زیادہ آسان ہوتی ہے۔ ملت ایران نے ثابت کرکے دکھایا کہ سیاست اور سلامتی کے میدان جنگ میں اس کی استقامت اور بصیرت فوجی لڑائی کے میدان سے کسی طور پر بھی کم نہیں ہے۔ چنانچہ ہمارے نوجوان بحمداللہ لائق اور تیارشدہ نوجوان ہیں گو کہ البتہ انہیں اتنی ہی مقدار پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے؛ دو چند ہمت، دوچند محنت. اپنی ہمت بلند کریں۔ ملت ایران کو استبداد اور بیرونی قوتوں کی مداخلتوں اور بیرونی اثر و رسوخ کے طویل عرصے سے ورثے میں ملنے والی پسماندگیوں کی تلافی کرنی ہے۔ میں پورے وثوق کے ساتھ مطمئن ہوں کہ ہمارے عزیز ملک کا آج کا نوجوان دنیا کی سطح پر کم نظیر یا بے نظیر ہے۔ اور یہ ہمارے ملک کے مستقبل کے لئے ایک خوشخبری ہے۔

انشاء اللہ آپ نوجوان اس دن کا ضرور مشاہدہ کریں گے جب آپ کا ملک سائنس اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھی اور سیاسی اور بین الاقوامی اثر و رسوخ کے حوالے سے بھی اس سطح پر پہنچے گا جو ایران کی عظیم ملت کے شایان شان ہوگی۔

امید ہے کہ ان‌شاءاللَّہ حضرت بقيۃاللَّہ (اروحنافداہ) کی دعا آپ کے شامل حال ہو، شہدائے عزیز، مسلط کردہ جنگ اور دفاع مقدس کے شہداء ـ بالخصوص فتح المبین کی کاروائی کے دوران اس علاقے میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہیدوں کی مطہر روحیں الطاف خداوندی سے بہرہ مند اور ہم سے راضی اور خوشنود ہوں اور انشاء اللہ ہمارے امام عزیز کی روح مطہر ہم سب سے راضی اور خوشنود ہو. انشاء اللہ.

متعلقہ مضامین

Back to top button