مقالہ جات

صہیونیزم ، فسطائیت کا دوسرا چہرہ

israeliفلسطین کا بحران اس وقت سے شروع ہوا جب سے صیہونیوں نے انیس سو اڑتالیس 1984 میں سرزمیں قدس پرقبضہ کیا۔ اسی زمانے سے یہ بحران لوگوں اور حکومتوں خاص طورسے عالم اسلام کی توجہ کا مرکز بناہواہے۔ گرچہ صیہونی حکومت اور اس کے مغربی حامی یہ کہتےہیں کہ اب بحران فلسطین ختم ہوگيا اور اسرائیل کی حکومت قائم ہوچکی ہے لیکن ملت فلسطین کی جدوجھد بالخصوص تحریک انتفاضہ اور ملت فلسطین کےحق  میں امت اسلامی کی حمایت اس بات کا باعث ہوئي ہےکہ فلسطین کا مسئلہ عالمی سطح پرزندہ اور عالم اسلام کے اہم ترین مسائل کی حیثیت سے باقی رہے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای مسئلہ فلسطین کی اہمیت کے بارےمیں فرماتےہیں کہ حقیقت میں آج مسلمانوں کا اور اسلامی ملکوں کا کوئي مسئلہ فلسطین کےبرابر اہم نہيں ہے ۔ یہ سب سے بڑی مصیبت ہےجو حالیہ دھائيوں میں تمام مسلمانوں پرنازل ہوئي ہے، آپ نے فرمایا کہ اسلام کے عالمی دشمنوں نے مسلمانوں کی سرزمیں کے ایک حصے پرقبضہ کرلیا ہے اور اسے مسلمانوں کی تحریکوں اور مطالبات سے مقابلہ کرنے اور ان کی صفوں پرحملہ کرنے کا مرکز بنالیاہے۔
سامعین گذشتہ چند ہفتوں قبل ایک واقعہ ایسا پیش آیا ہے جس سے مسئلہ فلسطین ایک بار پھر اھل عالم کی نظروں میں آگيا ہے۔یہ واقعہ غزہ کے لئے امداد لے جانے والے کارواں آزادی پرحملہ تھا ۔ صیہونی فوج کے وحشی کمانڈوز نے اس امدادی کارواں پربین الاقوامی سمندر میں فضا اور سمندر سے حملے کئے اور انیس امدادی کارکنوں کو شہید کردیا جبکہ دسیوں افراد زخمی ہوے ہیں۔ رہبرانقلاب اسلامی نے اس واقعے پرپیغام جاری کرتے ہوئے فرمایاہے کہ غزہ کے لئے امدادی کاروان دراصل عالمی رائے عامہ اور ضمیر انسانیت کے نمایندے ہیں۔ آپ نے اسی بناپرکارواں آزادی پرصیہونی فوج کےحملوں کے بارےمیں فرمایا ہےکہ اس مجرمانہ حملے سے سب پر واضح ہوگيا ہوگا کہ صیہونیزم فسطائيت کا مزید تشدد پسند نیا چہرہ ہے۔ اور اس بار اس کی حمایت ومدد انسانی حقوق اور آزادی کی دعویدار حکومتوں خاص طور سے امریکہ کررہاہے۔ گذشتہ چند برسوں میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینی عوام کا قتل عام اور تشدد پسند پالیسیاں یہ بتاتی ہیں کہ صیہونیزم فسطائيت کے سکے کا دوسرا رخ ہے۔ اس وقت صیہونی حکومت نے دوسرے ملکوں کے افراد کا قتل عام کرکے کہ جن کا گناہ صرف غزہ کے عوام کی مدد کرنا تھا اپنا کریھ چہرہ مزید آشکار کردیاہے۔
غزہ کابحران اس وقت شروع ہوا جب تحریک حماس دوہزآر چھےمیں فلسطین کے عام انتخابات میں بھاری مینڈیٹ سے کامیاب ہوئي۔ اسی وقت سے صیہونی حکومت اور اس کے مغربی حامیوں نے حماس پردباو ڈالنا شروع کیا اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں غزہ حماس کا مرکز ہے۔ صیہونی حکومت اور اس کے مغربی آقاؤں نے اپنے غیر انسانی اھداف کے تحت آخرکار غزہ پٹی کا شدید محاصرہ کردیا۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای غزہ کے محصور عوام کی افسوسناک حالت کے بارےمیں فرماتےہیں کہ تین برسوں سے پندرہ لاکھ افراد کی آبادی کا محاصرہ کیا گياہے، یہاں نہ دوائيں لانے کی اجازت ہے نہ غذائي اشیاء لانے دی جاتی ہیں ان کے پینے کے پانی کی سپلائی میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، بجلی کی سپلائی مختل کی جاتی ہے، جنگ کی تباہیوں کو مٹانے کے لئے ضروری سیمنٹ اور تعمیراتی سازوسامان کی ترسیل میں بھی خلل ڈالا جاتاہے۔ آپ نےصیہونی حکومت کی اس حرکت کو وحشیانہ اور شقاوت آمیز قراردیا اور کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہےکہ بعض عرب حکومتیں بھی اس کا ساتھ دے رہی ہیں۔
صیہونی حکومت نے دوہزآر آٹھ کے آخری دنوں میں غزہ پربائيس روزہ جارحیت شروع کی تھی لیکن فلسطینی مجاھدین نے ڈٹ کرصیہونی فوج کا مقابلہ کیا۔ اور آخر کار بائيس روزبعد صیہونی حکومت کو کسی کامیابی کےبغیر یہ جنگ ختم کرنی پڑی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بائيس روزہ جارحیت کے دوران غزہ کے عوام کی دلیرانہ استقامت کےبارےمیں فرمایا ہےکہ حق و انصاف یہ ہےکہ فلسطین اور غزہ کے عوام نے تاریخ میں پائدارترین قوم کی حیثیت سے اپنا نام ثبت کردیاہے۔ آپ فرماتےہیں کہ غزہ کا مسئلہ کسی زمین کے ایک ٹکڑے کا مسئلہ نہيں ہے بلکہ انسانیت اور انسانی اصولوں پر،مل اور ان کی مخالفت کرنے کا معیار ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں فلسطین کی قانونی حکومت کے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کو مخاطب کرکے کہا کہ اب تک آپ کے جہاد نے امریکہ اور صیہونی حکومت اور اسکے حامیوں کو نیز اقوام متحدہ اور امت اسلامی میں موجود منافقوں کو رسوا کردیاہے ۔ امت اسلامی کےمنافقین سے آپ کی مراد بعض عرب حکومتیں ہیں جو فلسطینوں کی حمایت کا دکھاوا کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کے ساتھ خیانت کرتی ہیں یہانتک کہ فلسطینی عوام پرمظالم ڈھانے میں صیہونی حکومت کا ساتھ بھی دیتی ہیں۔
رہبرانقلاب اسلامی نے کاروان آزادی پرصیہونی حکومت کے حملوں کے بعد اپنے پیغام میں فرمایا ہےکہ صیہونی حکومت کا یہ اقدام اس کی بوکھلاہٹ اور پریشانی کی علامت ہے۔ آپ نے حال ہی میں تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں اس مسئلے پرروشنی ڈالتےہوئے فرمایا کہ صیہونی حکومت نے کھلے سمندر میں امدادی کارواں پرحملہ کیوں کیا، ان کا قتل عام کیوں کیا؟ اور ایک بڑی تعداد کو قید کیوں کیا؟ اس وجہ سے کہ صیہونی حکومت کی ماہیت میں وحشی پن ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس پراسلامی جہموریہ ایران تیس برسوں سے تاکید کررہا ہے لیکن مغرب جوکہ دوغلہ اور جھوٹا اور ریا کار ہے اسے نظرانداز کررہا ہے، آج دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ یہ لوگ کس قدر وحشی ہیں۔
رہبرانقلاب اسلامی نے کاروان آزادی پرصیہونی حکومت کے حملوں کی وجوہات کا تجزیہ پیش کرتےہوئے ایک اور اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آپ فرماتےہیں کہ سنت الھی یہ ہےکہ ستمگر( صیہونی ) اپنے شرمناک دورکے آخر میں اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے حتمی زوال و فناکے قریب پہنچتے جائيں گے ۔ لبنان پرحملہ اور اس کے بعد غزہ پرحملہ ان ہی جنونی اقدامات میں سے ہیں جنہوں نے صیہونی دہشتگردوں کرحتمی زوال سے قریب کردیاہے اور مڈیٹرینین سمندر میں بین الاقوامی امدادی کارواں پرحملہ بھی اسی طرح کا احمقانہ اقدام ہے۔
غزہ امدادی کارواں پرحملہ اور امدادی کارکنوں کے قتل عام کے واقعے پر قوموں اور بہت سے ملکوں نے شدید رد عمل ظاہرکیا جس سے معلوم ہوتاہےکہ اس واقعے کی وجہ سے صیہونی حکومت کی وحشیانہ ماہیت پہلے سے زیادہ آشکار ہوگئي ہے ۔
رہبرانقلاب اسلامی نے اس بات پربھی تاکید کی ہےکہ غزہ کے لئے امدادی کاروانوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ آپ فرماتےہیں کہ غزہ کے لئے امدادی کاروانوں کے بھیجے جانے کا علامتی اور درخشان کام مختلف صورتوں اور طریقوں سے جاری رہنا چاہیے اور یہ کام بار بار کیا جائے۔ سفاک صیہونی حکومت اور اس کے حامی بالخصوص امریکہ اور برطانیہ اپنے مقابل انسانیت کے ضمیر کی ناقابل تسخیر طاقت کو دیکھيں اور احساس کریں۔
اس وقت ایران سمیت بہت سے ملکوں نے غزہ کے لئے امدادی کارواں بھیجنے پرآمادگي ظاہرکی ہے اور اس کےنتیجے میں صیہونی حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر قوموں کی آواز سنائي دینے لگي۔ غزہ کے لئے کارواں آزادی پرصیہونی جارحیت کے بعد ایک اور امدادی کاروان غزہ کے لئےروانہ ہوا لیکن غزہ کے قریب صیہونی حکومت نے اس امدادی کارواں کو بھی ضبط کرلیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ہمیشہ تاکید فرمائي ہےکہ فلسطین کی آزادی کا واحد راستہ صیہونی جارحین کے مقابل استقامت ہے۔ لبنان اور فلسطین میں اس استقامت کے مفید نتائج برامد ہوئےہیں اور اس سے ظاہرہواہےکہ صیہونی حکومت کو اب نقصان پہنچ سکتاہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ راہ قدس، راہ فلسطین، راہ نجات فلسطین و مسئلہ فلسطین کا حل استقامت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ رہبر انقلاب اسلامی مسلمانوں کو فلسطین کی مدد کرنے کی دعوت دیتےہوئے فرماتےہیں کہ فلسطین کے اسلامی قیام کا دفاع، واجب عینی اور دفاعی جہاد کے واضح ترین مصادیق میں سےہے جس پرتمام فقہاء تاکید کرتےہیں۔ آپ فرماتےہیں کہ فلسطینی عوام کی مدد کرنا تمام آزاد ضمیر انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ آپ فرماتےہیں کہ تمام قوموں پر فلسطین کے تعلق سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے، تمام حکومتوں پرذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان، ہروہ حکومت جو انسانیت کی حمایت کا دعوی کرتی ہے اس پرذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ البتہ مسلمانوں کی ذمہ داری زیادہ سنگين ہے ۔
رہبرانقلاب اسلامی کی نگاہ میں خدا پرتوکل کرنا ملت فلسطین کی کامیابی اور رہائي کا ضامن ہے البتہ مجموعی طورسے ہر جدوجہد میں کامیابی کا ضامن ہے ۔گذشتہ دھائيوں میں انقلاب اسلامی کی کامیابی اور ترقی ، لبنان میں حزب اللہ کی کامیابیاں اور فلسطینی عوام کی انتفاضہ تحریک، جدوجھد میں خدا پر بھروسہ کرنے کے تین کامیاب نمونے ہیں۔
رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای فلسطین کی تحریک انتفاضہ کےبارےمیں فرماتےہیں ان برسوں کے دوران جب تحریک انتفاضہ شروع ہوئي اور حقیقی مزاحمت کا آغاز ہوا فلسطینیوں پرجوکچھ گذرا وہ کوئي عجیب بات نہیں ہے یہ خدا کی ھدایت اور دستگيری کےعلاوہ کچھ نہيں ہے ۔ انسان جب یہ دیکھتاہےکہ غزہ میں اس قدر مصیبتیں اس قدر تلخیاں ، اس قد دباو خواہ وہ بائيس روزہ جارحیت کے دوران رہاہو یاپھر اس کےبعد غزہ کے عوام پرآج تک جاری مصائب ہوں، ان مصائب کے باوجود غزہ کے عوام پہاڑ کی طرح ڈٹے ہیں، یہ ایک عظیم حقیقت ہے اس کو ہرگز نظرانداز نہيں کیا جاسکتا۔ رہبرانقلاب اسلامی نے ان غیبی امدادوں کےپیش نظر فلسطینیوں کو روشن مستقبل کی بشارت دی ہے۔ آپ فرماتےہیں فلسطینی بھائيوں اور بہنوں خدائے قادر وحکیم پراعتماد کریں، اپنی طاقت پرباور کریں اور اس میں اضافہ کریں اور حتمی کامیابی پریقین رکھیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button