اہم ترین خبریںمقالہ جات

گلگت بلتستان انتخابات توقعات اور نتائج | آئی ایچ نقوی

اگر بلاول بھٹو یہ 22 دن نہ لگاتے تو قوی امکان تھا کہ پیپلز پارٹی کا بھی وہی حال ہوتا جو تحریک اسلامی یا کم از کم نون لیگ کیساتھ ہوا

شیعیت نیوز: 15نومبر 2020 کو گلگت بلتستان میں انتخابی معرکہ ہوا، جس میں پاکستان تحریک انصاف نے دس نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ سات آزاد امیدوار، تین پاکستان پیپلز پارٹی ایک مجلس وحدت مسلمین، ایک جمیعت علماء اسلام اور ایک نون لیگ نے حاصل کی جبکہ کہ نون لیگ حق بجانب تھی اور مریم نواز کی کمپین سے توقع کر رہی تھی کہ اچھی سیٹیں حاصل کرے گی، کیونکہ پچھلے پانچ سال سے وہی حکومت کام کر رہی تھی، لیکن ان کی توقعات پوری نہ ہوسکیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے 22 دن سے زیادہ گلگت بلتستان میں رہ کر بتایا ہے کہ اس علاقہ کی کیا اہمیت ہے۔ اگر بلاول بھٹو یہ 22 دن نہ لگاتے تو قوی امکان تھا کہ پیپلز پارٹی کا بھی وہی حال ہوتا جو تحریک اسلامی یا کم از کم نون لیگ کیساتھ ہوا۔ آزاد امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے۔ کچھ امیدواروں کے بارے میں پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ہمارے امیدوار ہیں لیکن کچھ مجبوریوں کی بنا پر ان کو ٹکٹ نہ دے سکے تھے جبکہ جمعیت علمائے اسلام ایک مخصوص طبقہ کی نمائندہ جماعت ہے اور اس کی سیٹ جیتنا خلاف توقع نہ ہے، کیونکہ کہ یہ ایک مخصوص گروہ ہے، جس کا ملکی معاملات سے کوئی تعلق نہ ہے اور اپنے مفاد پر پہرا دینا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سرگودھا، سعودی نواز کالعدم سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں کے ہاتھوں اہل تشیع مسلک کی مسجد شہید

اب اس جماعت کا ذکر کرتا ہوں، جو شیعہ جماعت ہونے کی دعویدار ہے اور شیعہ حقوق کی جدوجہد میں کوشاں ہے۔ جب الیکشن کا اعلان ہوا اور جوڑ توڑ شروع ہوا تو مجلس وحدت مسلمین نے اپنا فوکس اس علاقے کو حقوق دلوانے کیلئے رکھا، لہذا الیکشن لڑنا ان کی ترجیح نہ تھا، اہل علاقہ کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنایا جائے، لہذا جب پی ٹی آئی نے اس پر آمادگی کا اظہار کیا تو مجلس وحدت مسلمین نے اس کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا جبکہ اس سلسلہ میں اسلامی تحریک کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی، لیکن دال نہ گلی کیونکہ آپ کو یاد ہوگا تحریک اسلامی بھی اکثریتی جماعت رہی ہے، اب جب الیکشن ہوگیا تو مختلف تجزیئے مارکیٹ میں آنے لگے ہیں، جس میں خاص طور پر مجلس وحدت مسلمین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں، میں مکمل طور پر تو نہیں جانتا لیکن میرا خیال ہے کہ اس الیکشن میں مجلس وحدت مسلمین نے فیصلہ کن رول ادا کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں کی کامیابی میں ایم ڈبلیو ایم نے بھرپور کردار ادا کیا ہے، جبکہ عام لوگوں کو اس بات کا علم نہیں  ہے۔ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مجلس وحدت مسلمین نے صرف ایک ہی نشست حاصل کی جبکہ آزاد امیدوار کی اگر بات نہ بھی کی جائے تو یہ مجلس وحدت مسلمین کی ایک نہیں گیارہویں نشست ہے، جس کا آئندہ آنیوالے دنوں میں اندازہ ہو جائے گا۔ مجلس وحدت مسلمین نے دو سیٹوں پر کیوں الیکشن لڑا، اس کا جواب میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ وسیع تر علاقائی مفاد کو حاصل کرنے کیلئے ذاتی مفادات کو قربان کیا گیا، جو کہ متاثر کن ہے اور گلگت بلتستان کی عوام ہمیشہ اس بات کو یاد رکھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: آخری لاپتہ عزادارکی بازیابی تک احتجاجی تحریک جاری رہے گی، جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار شیعہ مسنگ پرسنز

اگر گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ مل جاتا ہے تو پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی آئے گی، جس سے قومیت میں اضافہ ہوگا۔ بین المسالک اور بین المذاہب قربت، رواداری میں اضافہ ہوگا۔ ایک محروم علاقے کے مظلوم عوام کی سوچ قومی معاملات میں داخل ہو جائے گی اور سی پیک کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ لہذا اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک مضبوط حکومت گلگت بلتستان میں بنائی جائے، جو ان اہداف کو پورا کرسکے، کیونکہ باقی تمام پارٹیاں اس کی مخالفت کرچکی ہیں۔ اب آزاد امیدواروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات بالائے طاق رکھ کر قومی مفادات کو ترجیح دیں، حکومت کا ساتھ دیں اور اپنے آئینی حقوق حاصل کریں۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز

متعلقہ مضامین

Back to top button