اہم ترین خبریںمقالہ جات

راجہ صاحب محمود آباد تحریک آزادی اور جمہوری روایات کے عظیم پاسبان

تحریر و تحقیق ،توقیر کھرل

شیعیت نیوز : راجہ امیر خاں 5نومبر1914کوایک علمی خاندان میں اودھ کی ریاست محمود آباد میں پیدا ہوئے ۔ بچپن سے ہی ان کی تربیت کا خصوصی خیال رکھا گیا ۔ ایک انٹرویو میں راجہ صاحب نے اپنی ذہنی تربیت کے حوالے سے کہا کہ میری تربیت اور ذہنی نشوونما ایک ایسے ماحول میں ہوئی جو اخلاقی اور مذہبی روایات کا امین تھا اس تر بیت نے ہی مجھے وہ ذہنی توانائی بخشی کہ میںہر طرح کی مادی ترغیبات کا مقابلہ کرسکا اور بعد کے مسلسل مطالعے نے مجھے یقین دلایا کہ انسان کی روحانی طمانیت اور ذہنی سکون کا راز سادہ اور قانع زندگی بسر کرنے میں پوشیدہ ہے میرا مذہب میرے لئے معاشرتی رجعت پسندی ذہنی پسماندگی کا نقیب نہیں بلکہ زندگی ،ایثار،جدوجہد، اور انقلاب کا پیام بر ہے راجہ صاحب اپنی فکر میں ایک مصلح قوم تھے اور ان کی ہر لمحہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ مسلمان اپنی روایتی بلند کرداری اور اعلیٰ تعلیمات میں خود کو دیکھیں اور پھر دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کریں جو اسلامی روح کے عین مطابق ہو ان کا علم و فضل خضو ع و خشوع سادگی اور انکساری مذہب و ملت کا درد پابندی احکام الہیٰ اور عبادت گزاری ایسے اوصاف تھے جنہوں نے راجہ صاحب کو تحریک پاکستان کے دوران بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی دیگر رہنماؤں سے ہمیشہ ممتاز و ممیز رکھا ۔

راجہ امیر خان کے والد مہاراجہ محمد علی محمد کے قائد اعظم محمد علی جناح سے دیرینہ تعلقات تھے۔ پاکستان کے قیام کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح کی جدوجہد جاری تھی جس کے لئے راجہ محمد علی محمد اور اور ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے راجہ محمد امیر احمد خاں سرفہرست تھے راجہ صاحب محمود آباد قائد اعظم کے لئے ایک قابل اعتبار شخصیت تھے کئی مواقع پر اپنی نیابت کے لئے منتخب کیا یہی وجہ ہے کہ راجہ امیر قائد اعظم کو انکل اور فاطمہ جناح کو پھوپھی کہا کرتے تھے ۔1931میں مہاراجہ محمد علی محمد کے انتقال کے بعد قائد اعظم کو بطور مسلم لیگ کے سربراہ کے ایسے ساتھیوں کی تلاش تھی جومقاصد کے حصول کے لئے کچھ کر گزرنے کا حوصلہ اور مالی اعتبار سے بھی مستحکم ہوں ۔ان حالات میں راجہ صاحب محمود آباد نے قائد اعظم کا بھرپور ساتھ دیا راجہ امیر خاں نے اپنے والد کی طرح مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے نہ صرف اپنی ریاست کی آمدنی کو بے دریغ خرچ کیا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نو اور بعد میں تحریک پاکستان کو مقبول بنانے کے لئے اپنی بساط و گنجائش سے کہیں زیادہ سرمایہ فراہم کیا ۔راجہ صاحب نے قوم کو عملی اور فکری رہنمائی بھی فراہم کی ۔

1936میں ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاسی بیداری کا آغاز ہوا جس کے نیتجے میں 1940میں ایک علیحدہ مسلم وطن کا مطالبہ کیا گیا راجہ صاحب محمود آباد اس عرصہ میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرچکے تھے اور انہیں بعد ازاں مسلم لیگ کا خزانچی مقرر کیا گیا ۔28دسمبر1937میں قائد اعظم کی ایماءپرراجہ امیر خاں کو آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن کا پہلا صدر منتخب کیا گیا ۔راجہ صاحب کو بحیثیت صدر وابستگی نے نہ صرف فیڈریشن کے تنظیمی معاملات کو فزوں کیا بلکہ نوجوانوں میں ایک یسا جذبہ پیدا کردیا کو آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت میں بھی معاون ثابت ہوا۔ان کی مقبولیت کے باعث ان کو اکثر قومی اجلاسوں میں بھی بلایا جاتا تھا ۔دہلی میں 25ہزار افراد کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے راجہ امیر خاں نے کہا کہ ہم آٹھ کروڑ ہیں مگر ہماری ہمتیں پست ہوچکی ہیں ضمیر کی آزادی کی ضرورت ہے میرا عقیدہ اور ایمان ہے کہ اسلام کی مساوات ،اسلام کی اخوت اور اسلام کی سی ترقی دنیا کے کسی مذہب میں بھی نہیں آپ اب بیدار ہوکر رسول اکرم ﷺ کے دامن کو پکڑئے ۔1940کی آخری سہہ ماہی میں راجہ صاحب مسلسل سفر میں رہے اور مسلم لیگ کے لئے کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔1943میں راجہ صاحب مسلم لیگ اور فیڈریشن سے وابستہ تو تھے لیکن کسی حد تک سیاسی سرگرمیوں سے کناری کشی اختیار کر لی تھی وہ سمجھتے تھے کہ جب تک مسلمانان ہند میں جذبہ ایمانی فروغ نہیں پاتااور قرآن مجید کے پیغام پر عمل پیرا نہیں ہوجاتے وہ کامیاب نہیں ہوسکتے۔راجہ صاحب کی مسلم لیگ سے دوری قائد اعظم کے لئے تشویش ناک تھی لہزا انہوں نے مرزا ابو الحسن اصفہانی کو راجہ صاحب سے گفتگو کرنے پر مامور کیا مرزا ابو الحسن نے راجہ صاحب کو کلکتہ آنے پر رضامند کیا 1943میں ہی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کااجلاس ہوا تو ان کو دوبارہ صدر منتخب کیا گیا۔وہ پھر سے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سرگرم عمل ہوچکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں پاکستان کے قیام و استحکام میں شیعہ مسلمانوں کا کردار

جون1943کو علی گڑھ میں” اسلامی جماعت” کے قیام کا اعلان کیا گیا اور کہا کہ ملک کے ہر صوبے میں اسلامی جماعت کی شاخیں قائم کی جائیں گی اور یہ بھی اعلان کیا گیا اس جماعت کا رکن ہرمسلمان بن سکتا ہے لیکن اس کو عہد کرنا ہوگا کہ وہ رسول خدا ﷺ کی اتباع کی پوری کوشش کرے گا راجہ محمد امیر احمد خاں کو قائد اعظم محمد عی جناح سے جو قلبی لگاؤ تھا اس کا اندازہ اس خط و کتابت سے بخوبی ہوتا ہے جو وقتا فوقتا ان دونوں رہنماؤں کے درمیان ہوتی تھی وہ قائد اعظم کو نہ صرف اپنا سیاسی رہنما تسلیم کرتے تھے بلکہ تنظیمی امور میں قائد اعظم کی اتباع کو اپنا فرض سمجھتے تھے لیکن اس کے باجود کبھی کلمہ حق کی ادائی میں تکلف سے کام نہیں لیا تھا تحریک پاکستان کے دوران جب ایک مرحلہ پر انہوں نے اسلامی جماعت کے قیام کا اعلان کیا تو قائد اعظم کے ان کے اس قدم کو زیادہ پسند نہیں کیا مگر راجہ صاحب نے جو ایک اسلامی معاشرہ کے قیام پر یقین رکھتے تھے اپنا مشن جاری رکھا۔

اسلامی جماعت کے بانیان میں مسلم لیگ کے رہنماءراجہ محمود آباد،داکٹر افضال قادری اور ڈاکٹر محمود حسین شامل تھے جس کے باعث یہ خیال پایا گیا کہ یہ مسلم لیگ نے ہی قائم کی ہے لیکن اس بات کی تردید کی گئی ۔راجہ صاحب نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اسلامی ریاست کے لئے میری وکالت نے مجھے جناح صاحب سے اختلافات سے دوچار کردیا انہوں نے میرے خیالات کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔اور مجھے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ایسے خیالات کے پرچار سے روک دیا اس خدشہ کے تحت کہ مبادا لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ جناح بھی میرے ان خیالات کو درست تصور کرتے ہیں ۔میں جناح سے خیالات کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کر سکتا تھا اس لئے خود کو جناح سے الگ رکھنے کا فیصلہ کیا۔البتہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ میں شرکت کرتا رہا اب جب میں ماضی میں نگاہ ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میں کس قدر غلطی پر تھا ۔

اگست 1946میں راجہ امیر خان نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور جون 1947میں قیصر باغ لکھنو سے تیس افراد پر مشتمل قافلے کے ساتھ عراق روانہ ہوئے اور جولائی کے وسط میں واپس تشریف لائے1959میں ایک انٹرویو کے دوران حصول آزادی اور قیام پاکستان کے بعد سیاسی معاملات میں اپنی کنارہ کشی اور اس حوالے سے چہ مگوئیوں کے بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تمام چہ مگوئیاں بے محل اور قیاس آرائیاں بے موقع ہیں آزادی اور قیام پاکستان کا مطالبہ میرا قدرتی حق تھا جس کے لئے بھرپور جدوجہد کی اور اب بھی نظریہ کے مطابق خدمت کر رہا ہوں۔قیام پاکستان کے بعد اگست میں ہی ایران روانہ ہوگئے اور عراق میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا اعلان کیا ان سے ایک انٹرویو میں دریافت کیا گیا کہ آپ نے قیام پاکستان کے بعد ملک میں قیام کیوں نہیں کیا تو کہا توتقسیم ہند کے بعد میں نے محسوس نہ کیا کہ اس ملک میں میری ضرورت ہوگی اور اس ملک سے استفادہ کرنا مجھے گوارہ نہ ہوا اس لئے میں ایران کی طرف روانہ ہوگیا۔

1948 سے 1955تک راجہ صاحب عراق میں ہی رہے لیکن بوقت ضرورت بھارت اور پاکستان آتے رہے 1957میں پاکستان کے گورنر جنرل سکندر مرزا نے ایک ملاقات کے دوران راجہ صاحب کو کہاکہ وہ بھارت میں رہ جانے والی جائیداد کی فہرست فراہم کریں تو حکومت ان کو معاوضہ دے گی راجہ صاحب نے کہا ہزاروں لوگ ہندوستان کو چھوڑ کر آئے کیا ان سب کو معاوضہ دیا گیا ۔ راجہ صاحب 1957میں پاکستان آئے تو اپنی تقریر میں کہا کہ میں نے سیاست میں خاصہ وقت اور پیسہ صرف کیا اس امید پر کہ عوام کو خوشحالی نصیب ہوگی مگر ان کے مسائل بجائے حل ہونے کے اور بڑھتے ہی چلے گئے میں چند وجوہات کی بنا پر پاکستان نہ آسکا بلکہ 1957 میں آیا ہوں تو پاکستان کے حالات کا مطالعہ کر رہا ہوں اور میرے دل میں ایک آگ سی لگی ہوئی ہے اس آگ کی لگن میں عوام کے لئے کچھ کرسکوں اور اس مقصد کے لئے فنا ہوجانے تک کو تیار ہوں راجہ صاحب نے دسمبر1956میں کراچی میں قیام کیا ۔اپنی زندگی کا ایک نیا دور شروع کیا ۔ان کے قیام سے تحریک پاکستان کے رہنماؤں اور کارکنوں کے اندر جرات عمل پیدا ہوئی۔اوران کی رہائش گاہ پر رہنماؤں سیاستدانوں اور سابق آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن کے وابستہ افراد کا ہجوم رہنے لگا ۔

راجہ صاحب کی اس قدر پزیرائی جہاں چند افراد کو شاق گزری وہاں پاکستان مسلم لیگ کو از سر نو ایک فعال سیاسی جماعت بنانے پر توجہ دی بلکہ راجہ صاحب سے درخواست کی کہ وہ مسلم لیگ کی قیادت سنبھالیں تاکہ جماعت کا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل ہوسکے راجہ صاحب نے اس پیشکش کو یہ کہہ کرقبول کرنے سے انکار کردیا کہ جب وہ ملک میں جمہوریت کو رائج کرنے کے خواہاں ہیں تو پھر وہ ایک سیاسی جماعت کی قیادت غیر جمہوری انداز میں کیسے سنبھالیں ۔19مارچ 1957کو راجہ امیر خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسلم لیگ جس نے آزادی کے لئے جدوجہد کی تھی اور جس نے پاکستان حاصل کیا تھا قائد اعظم کے انتقال کے بعد ختم ہوگئی اب میرا مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ 1957میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاءنافذ کیا تو ان کے دل پر گراں گزرا۔انہوں نے جنرل ایوب خان کے اس فیصلے کے بعد دوبارہ سے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا کیونکہ جنرل ایوب ان کو مسلم لیگ کا صدر دیکھنا چاہتے تھے لیکن راجہ صاحب نے کہا اب میرا قائد اعظم کے بعد کی اس مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں ۔وہ 1962میں یورپ، بیروت، ایران، عراق اور فرانس کے دورہ پر چلے گئے ۔وہ لندن میں ہی مقیم تھے کہ پاکستان میں جنرل ایوب خان کی حکومت نے سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندی اٹھالی تو راجہ صاحب کو لیگی کارکنان کی جانب سے صدارت کے لئے نامزد کیا گیا لیکن انہوں نے انکارکردیا۔1963تا1969تک متعدد بار پاکستان آئے اور لندن گئے لیکن انہوں نے پاکستان میں کسی قسم کی سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا۔

1971میں سقط مشرقی پاکستان راجہ صاحب کے لئے بہت بڑا سانحہ تھاوہ سیاسی صورتحال سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ لندن واپس چلے گئے ان کی عارضہ قلب کی تکلیف بڑھ گئی اور وہ ہسپتال میں داخل ہوگئے ایک ماہ کے بعدوہ ہسپتال سے واپس آئے اور اسلامک سنٹر کے قیام کے لئے جدوجہد کرتے رہے 14اکتوبر1973کو دل کا شدید دورہ پڑا اور59سال کی عمر میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔راجہ صاحب کی میت ایک خصوصی طیارے کے ذریعے لندن سے تہران لائی گئی اور مشہد مقدس میں حضرت امام علی رضا کے مقبرہ کے ساتھ احاطے میں سپردخاک کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button