اہم ترین خبریںپاکستانمقالہ جات

تحفظ بنیاد اسلام بل پر پنجاب اسمبلی میں موجود تکفیری اور عاشقان اہلبیت ؑ آمنے سامنے

پنجاب اسمبلی کے متنازع بل پر مندرجہ بالا افراد نے سنی شیعہ علماء کی واضح اکثریت، اہل دانش اور ماہرین قانون و سیاست و سماج اور متعدد اراکین اسمبلی کے مقابلے میں آنے کا فیصلہ کیا ہے

شیعیت نیوز: پنجاب اسمبلی کی طرف سے تحفظ بنیاد اسلام متنازعہ بل پاس کئے جانے کے بعد سنی شیعہ علماء، اہلِ دانش اور شعبہ جاتی ماہرین کی ایک واضح اکثریت نے اس بل کی مختلف شقوں پر اعتراض کیا۔ بعدازاں صوبائی اسمبلی کے اراکین کی ایک بڑی تعداد بھی اس بل پر اعتراض کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہوگئی۔ بل کی مختلف شقیں مجموعی طور پر اظہارِ خیال اور عقیدے و عمل کی آزادی کے آئینی اور انسانی حق کو زک پہنچاتی تھیں جن پر مفصل آراء پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر دستیاب ہیں۔

گزشتہ روز ایک مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے چند علماء نے اس تمام تر تنازعے اور اعتراضات سامنے آنے کے بعد بل کی حمایت میں پریس کانفرنس کی اور بل کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔ ان افراد میں مولانا زاہد الراشدی، لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید پراچہ، احمد لدھیانوی، ابتسام الہی ظہیر، مولانا عبد الروف فاروقی کے علاوہ چند دیگر شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: محبانِ اہل بیتؑ کیلئےبڑی خوشخبری،ملعون آصف جلالی ملعون کیس میں اہم عدالتی فیصلہ سامنےآگیا

پنجاب اسمبلی کے متنازع بل پر مندرجہ بالا افراد نے سنی شیعہ علماء کی واضح اکثریت، اہل دانش اور ماہرین قانون و سیاست و سماج اور متعدد اراکین اسمبلی کے مقابلے میں آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حتی اکثریت کے ساتھ ایک طرح کی جنگ کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے اس حوالے سے وہ جلد ایک مجلس عمل بنانے جارہے ہیں جس کے کنوینر جمیعت علمائے اسلام (س) کے سیکرٹری جنرل عبد الروف فاروقی ہوں گے۔

اس گروہ کے افراد پر اگر نظر دوڑائیں تو ان میں اکثریت دیگر مکاتب فکر کے حوالے سے تکفیری سوچ رکھنے والے افراد کی ہے البتہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ کا تکفیری سوچ کے حامل گروہ میں اضافہ نیا ہے۔

اس گروہ کے اس اقدام کے بعد تکفیری سوچ و فکر کے ذریعے دیگر مکاتب کو مورد الزام قرار دینے اور ان پر اپنی سوچ مسلط کرنے والے اس گروہ کے حالیہ اقدام سے کسی کو یہ شک اب نہیں رہ جانا چاہیے کہ پاکستان میں بطور ایک مکتب فکر ہمارے عقیدے و عمل کی آزادی کے آئینی حق اور پاکستانی قوم کے من حیث ایک آزاد قوم آزادی اظہار خیال کے مسلمہ حق کا دشمن کون ہے اور یہ کہ کونسا گروہ ملک سے اس کی مسلمان شناخت چھین کر اسے ایک مسلکی ملک بنانا چاہتا ہے۔ اس گروہ کی واضح شناخت اور کھل کر سامنے آجانے کے بعد بھی اگر کوئی فرد یا گروہ ان افراد کے ساتھ ملکر اتحاد و وحدت یا دینی و قومی یکجہتی کا چورن بیچنا چاہے تو وہ فرد انتہائی سادہ ہے یا عمدا تکفیریوں کی تطہیر کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ یہ گروہ کل بھی ملک و قوم کا بدخواہاں تھا اور آج بھی بدخواہاں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 73ویں یوم آزادی پربھی محب وطن شیعہ قید،جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار شیعہ مسنگ پرسنزکا16اگست کو گورنرہاؤس پراحتجاج کا اعلان

ایسے مواقع پر اگر اتنے واضح اقدامات کے باوجود کسی کو دوست و دشمن کی پہچان نہ ہوسکے تو رہبر انقلاب اسلامی نے کسی وقت میں ایک تقریر کے درمیان دوست و دشمن کی پہچان کا ایک اصول بیان کیا تھا جو یہاں بھی لاگو ہے۔ کس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہے اور کس کی طرف نہیں اس کی وضاحت انہوں نے یوں کی تھی: ” قرآن کریم کی ایک آیت نے دوسرے گروہوں کے حوالے سے ہماری ذمہ داری کا تعین کردیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ جن لوگوں نے ایمان اور نظریے کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے، جنہوں نے تمہارے حوالے سے مکرو فریب سے کام لیا ہے، جو تمہارے دشمن کے ساتھ جا ملے ہیں۔ ان کے ساتھ ہرگز دوستی اور تعلق قائم نہ کرو۔ ان کے ساتھ ہم پیمان اور ہمدست نہ ہوں۔ یہ معیار ہے۔ اس معیار کے ذریعے خطِ اسلام پر قائم یا خطِ اسلام سے منحرف گروہ اور افراد کی شناخت کریں۔ ہمارا کسی کے ساتھ کوئی تکلف نہیں ہے۔ وہ گروہ یا افراد خطِ اسلام پر ہیں جن کا برادری کا قاعدہ یہ ہو۔

"دیگر مکاتب فکر میں سے اگر کوئی برادری اور اخوت کا قائل اور خود کو اتحاد و وحدت کا داعی سمجھتا ہے تو اسے اس قرآنی اصول کا تابع ہونا چاہیے۔ اسے دیگر مکاتب کے ایمان اور نظریے سے جنگ سے اجتناب کرنا چاہیے، اسے دیگر مکاتب کے بارے سازشوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے، اسے دیگر مکاتب کے دشمنوں سے ہاتھ نہیں ملانا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو ہمارے نزدیک وہ خطِ اسلام پر نہیں ہے اور اس سے دوستی و تعلق کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ حالیہ مسئلے میں پاکستان کے علمائے کرام، محققین و مصنفین اور شعبہ جاتی ماہرین کی اکثریت کے خلاف اعلان بغاوت و جنگ کرنے والے افراد مندرجہ بالا قرآنی اصول کے تحت برادری و اخوت کے قابل نہیں ہیں۔ انہیں اپنی روش پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے وگرنہ ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے والوں کو اپنی روش بدلنی چاہیے کیونکہ دین اور قوم کے معاملے میں ہمیں کسی کے ساتھ کوئی تکلف نہیں ہے۔ اور اگر کوئی قوم و ملت اور مکتب پر کسی دیگر کو ترجیح دے گا تو جلد یا بدیر قوم اسے مسترد کردے گی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button