مقالہ جات

آبنائے ہرمز کے کنارے امریکی ناکامی کی چنگاریاں

سوچنے اور سمجھنے والوں کےلیے اتنا کافی ہے کہ واپسی کے اس سفر کی شروعات عراقی سفارتخانے پر عوامی احتجاج کے حملے میں بدلنے سے بخوبی ہوچکی ہے

شیعت نیوز: امریکا سے نوشتہ دیوار پڑھنے میں غلطی ہوگئی۔ شاید اسی لیے بغداد میں سفارتخانے پر حملے کی صورت عراقیوں کی عدم برداشت اور بدلتے موڈ کا بدلہ جنرل قاسم سلیمانی سے لے لیا۔ نتیجے میں تیل کی دولت سے مالا مال آبنائے ہرمز اور مشرق وسطیٰ میں امریکی اسٹرٹیجک اثاثے خطرے میں پڑگئے۔ یہ ٹرمپ کے ہر روز متزلزل رویے اور متلون مزاجی کا ہی کرشمہ ہے کہ آج امریکا خلیج میں اپنے اہم مستقر عراق سے جلد یا بدیر سامان سمیٹنے کی پوزیشن پر ہے۔ جو یقیناً مشرق وسطیٰ کی انتہائی اسٹرٹیجک صورتحال میں واشنگٹن کےلیے ایک بڑا سیٹ بیک ہوگا۔ سوچنے اور سمجھنے والوں کےلیے اتنا کافی ہے کہ واپسی کے اس سفر کی شروعات عراقی سفارتخانے پر عوامی احتجاج کے حملے میں بدلنے سے بخوبی ہوچکی ہے۔ دجلہ و فرات سے اٹھتی ان گرم ہواؤں کا پتہ بغداد میں سلیمانی کے لاکھوں پر مشتمل جنازہ جلوس سے بھی ہوا۔ عراقی پارلیمنٹ کی قرارداد اور پھر وزیراعظم عراق کے امریکی فوجیوں کی واپسی سے متعلق بیان کو بھی اگر آنے والے وقت کی بازگشت قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: بہاولنگر میں حساس اداروں کی کاروائی،کالعدم سپاہ صحابہ کے تین دہشتگرد گرفتار

امریکی حکام کو بہرصورت تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایرانی جنرل پر عراق میں حملہ ایک سنگین غلطی تھی، جس نے خطے میں اس کے مفادات کا تحفظ خطرے میں ڈال دیا۔ سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کے جوابی میزائل حملے سے لے کر شام، یمن، لبنان سمیت دنیا کے دیگر ملکوں میں احتجاج، خلیج میں ایران متحارب طاقتوں کا محتاط ردعمل، یورپی ممالک کی جانب سے ایک بار پھر معطل ایٹمی معاہدے کی بحالی کا مطالبہ اور نیٹو کے خلیج سے فوجیں نکالنے کے اعلان نے دنیا کے امریکی بیانیے کے ساتھ ہونے پر شکوک پیدا کرڈالے ہیں۔ دوسری جانب امریکا میں مظاہروں، کانگریس سے قرارداد کی منظوری اور سینیٹروں کی بڑی تعداد کے جنگ مخالف بیانات نے امریکی قوم میں واضح تقسیم بھی بے نقاب کردی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہید علامہ ضیاء الدین رضوی کی 15ویں برسی کی مناسبت سے عظیم الشان تعزیتی اجتماع

حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کا ایران کے خلاف بڑے حملے کا بیانیہ خلیج میں قریبی اتحادیوں کو متاثر کرسکا، نہ یورپ میں ایٹمی معاہدے کی حامی طاقتوں کو قائل۔ اور تو اور پاکستان، افغانستان نے بھی معاملے میں فریق بننے، اپنی سرزمین پڑوسی ملک کے خلاف استعمال کےلیے دینے سے واضح انکار کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: حلب میں دہشت گردوں کے مراکز پر روسی اور شامی طیاروں کی بمباری

مشرق بعید میں مہاتیر محمد کے بیانات سے لے کر جنوبی کوریا کے فوجیں بھیجنے سے انکار اور جاپانی وزیراعظم کے ایران سے لڑائی کو بڑی حماقت قرار دینے تک سب کچھ 2002 سے قطعی مختلف ہے، جب امریکا دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا اور پوری دنیا حمایت میں کھڑی ہوگئی تھی۔ آج واشنگٹن کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کے ڈرون میزائل نے بغداد کی سڑک پر جنرل قاسم سلیمانی کی گاڑی کو نہیں بلکہ خطے میں اس کے اپنے مفادات کو دھماکے سے اڑا ڈالا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایرانی عوام کی استقامت امریکا کی تلملاہٹ کا سبب ہے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای

امریکی تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے خلیج میں امریکا کی حالیہ سنگین غلطی کو ماضی میں کیے گئے غلط اقدامات کا تسلسل قرار دیا ہے۔ تھنک ٹینک نے صدام حسین کے بعد عراق میں کمزور ریاستی اسٹرکچر کے قیام اور 2011 میں عدم استحکام کے شکار ملک سے فوجی انخلا کو بھی بڑی غلطی شمار کیا ہے۔ ایسی ہی حماقت امریکا نے افغانستان میں سوویت یونین کی پسپائی کے وقت بھی کی تھی، جب جنگ سے تباہ حال ملک کو کسی سیاسی نظام اور انفرا اسٹرکچر کے بغیر بے آسرا چھوڑ دیا گیا تھا۔ نتیجتاً لاک لینڈ مستقل طور پر وار لینڈ بن گئی۔ جو آنے والے وقت میں انتہا پسندوں کی جنت بنی اور دنیا دہشتگردی کے عذاب میں مبتلا ہوگئی۔ خوف، خون اور خاک سے عبارت گزشتہ دو دہائیوں میں انتہاپسندوں نے دنیا کے طاقتور ترین ملکوں کے سیکیورٹی سسٹمز کو بھی خاک چاٹنے پر مجبور کردیا۔ ہزاروں خودکش حملوں کے نتیجے میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے۔ امریکا سمیت دیگر طاقتور ملکوں کی استحکام کی علامت قیمتی اثاثے دہشتگردوں کے نشانے پر رہے اور پوری دنیا سوا سولی پر لٹکی رہی۔

یہ بھی پڑھیں: علامہ علی مرتضیٰ زیدی کے جواں سال فرزند کی رحلت ، علامہ راجہ ناصرعباس کا اظہار تعزیت

یہ امریکی حکمت عملی کی ناکامی ہی ہے کہ شمالی کوریا کے چیلنج سے نبردآزما جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ بھی ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہر معاملے میں امریکا کا ساتھ دیں، واشنگٹن کےلیے تہران سے بہترین تعلقات خراب نہیں کرسکتے۔ دنیا میں طاقت کے بدلتے توازن کی جانب اسے ایک مبہم اشارہ سمجھا جائے تو بہتر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد کی فضاء دو ہفتوں میں تیسری بار مردہ باد امریکا کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی

دوسری جانب ایرانی حکمت عملی کے ہاتھوں عراق، شام میں داعش کی شکست بھی جہاں ایرانی اسٹرٹیجی کی بڑی کامیابی ہے، وہیں بین السطور امریکی پسپائی کی علامت بھی۔ کیونکہ اس سے قبل دنیا کی یونی پاور غیر معمولی طاقت اور وسائل کے باوجود آئی ایس آئی ایس کو عراق، شام اور دیگر عرب ملکوں میں شکست دینے میں ناکام رہی۔ امریکا نے اپنی اس ناکامی کو چھپانے کےلیے خطے کے دیگر ملکوں پر داعش کی سرپرستی کے الزامات کی طویل گردان بھی ترتیب دی اور ان ملکوں کو بلیک میل کیا گیا۔ یہی نہیں شام میں دہشت گردوں کی شکست، بشار حکومت کا استحکام، لیبیا میں روس کی نگرانی میں امن مذاکرات، خطے میں ترکی کا مدلل کردار، عراق میں بڑھتے ایرانی اثر ورسوخ اور یمن میں حوثیوں کا آج بھی میدان میں موجود رہنا، خلیج کے منظرنامے میں امریکی مفادات کو چیلنج کرنے کےلیے کافی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اُس مقاومتی محاذ کا حصہ ہے، جو ظالم امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کے خلاف لڑ رہا ہے،علامہ امین شہیدی

جنگ اور امن کےلیے پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس کی ناکام پالیسیوں اور طاقت کے استعمال کے فارمولے نے دنیا بھر میں امریکا کو سوائے رسوائی اور بدنامی کے کچھ نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کھربوں ڈالر مشرق وسطیٰ اور افغانستان کی بے سروپا جنگ میں جھونکنے کے باوجود انکل سام ایک استعماری شناخت کے سوا کچھ حاصل نہیں کرپائے۔ آبنائے ہرمز کے تیل کے بڑے ذخائر اور افغانستان میں زیر زمین تین ٹریلین ڈالر کی دولت آج بھی امریکی دسترس سے باہر ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ امریکی غیر ذمے داریوں، دھونس، دھمکی اور دھاندلی کے ساتھ کمزور مگر وسائل کی دولت سے مالا مال ملکوں کو زیر نگیں کرنے کی پالیسی کے نتیجے میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا۔ جس سے عالمی سطح پر ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کی تجارت میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ جس کا 36 فیصد حصہ امریکی آرمرڈ انڈسٹری کو ملا۔ شاید یہی اس لاحاصل جنگ کا حاصل ہے۔

 

تحریر:محمد سعید رفیق

متعلقہ مضامین

Back to top button