دنیا

صیہونی عدالت کا اسرائیلی وزیراعظم کی اہلیہ سارہ کو مالی کرپشن پر جرمانے کی سزا

شیعت نیوز: صیہونی عدالت نے وزیراعظم نیتن یاہو کی اہلیہ پر سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے اور خرد برد کے مقدمے میں مجرم قرار دیتے ہوئے حکومت کو رقم کی واپسی اور15 ہزار شیکلز کا جرمانہ عائد کیا ہے۔

مقبوضہ بیت المقدس میں مجسٹریٹ کی عدالت نے سارہ نیتن یاہو کی پلی بارگین کو قبول کر لیا ہے۔انھوں نے پراسیکیوٹر ز کے ساتھ اپنے خلاف قومی خزانے سے ایک لاکھ ڈالرز کی رقم پُرتعیش کھانوں پر اڑانے کے الزام کو قبول کرتے ہوئے جرمانے کی رقم ادا کرنے سے اتفاق کیا تھا اوراس سلسلے میں پلی بارگین پر دست خط کیے تھے۔

رپورٹ کے مطابق استغاثہ کے ساتھ طے ہونے والے معاہدے کے تحت نیتن یاہو کی اہلیہ جرم کا اعتراف کرنے پر جیل نہیں جائیں گی البتہ صیہونی عدالت  نے اُن پر ہزاروں ڈالر جرمانہ عائد کردیا۔ سارہ نیتن یاہو کو تقریباً ساڑھے 12 ہزار ڈالر سرکاری خزانے میں جمع کرانے ہوں گے جبکہ انہیں عدالت کی طرف سے عائد ہونے والا 2 ہزار 775 ڈالر کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔

اسٹیٹ اٹارنی کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی اہلیہ اب اپنے خلاف مقدمے کے خاتمے کے لیے جرمانے کی اضافی رقم ادا کریں گی۔ان پرلگژری ریستورانوں میں دعوتیں اڑانے کا الزام تھا جبکہ اسرائیلی وزیراعظم کی سرکاری اقامت گاہ میں ہمہ وقت ایک باورچی تعینات تھا۔

سارہ نیتن یاہو پر گذشتہ سال فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ پراسیکیوٹرز سے ان کے تصفیے کے مطابق انھوں نے معمولی الزامات کا اقرار کیا ہے اور ان پر عائد الزام کے مطابق زائد اخراجات کی رقم کو ایک لاکھ سے کم کرکے پچاس ہزار ڈالر کر دیا گیا ہے۔

سارہ نیتن یاہو سے پولیس نے سرکاری رقوم ذاتی مصارف پر خرچ کرنے، سرکاری خزانے سے لی گئی رقوم کو ذاتی مکان کی تعمیر ومرمت اور تزئین وآرایش پر اڑانے کے الزام میں پوچھ تاچھ کی تھی ۔ان پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے قومی خزانے سے رقوم کو قیصریہ میں واقع اپنے ذاتی ولا میں باغ کے فرنیچر کی خریداری اور بجلی کے نظام کو بہتر بنانے پر صرف کیا تھا۔

سارہ کے خلاف ایک عرصے سے فضول خرچی اور سرکاری عملہ سے دشنام طرازی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔2016ء میں ایک صیہونی عدالت نے ان کے خلاف ایک سرکاری خدمت گار سے دشنام طرازی کے الزام میں حکم جاری کیا تھا اور انھیں اس شخص کو 42 ہزار ڈالرز ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ وزیراعظم ہاؤس کے دوسرے سرکاری ملازمین نے بھی ان کے بارے میں ناروا سلوک اور سرکاری خزانے کو لذتِ کام ودہن میں اڑانے کے الزامات عائد کیے تھے۔انھوں نے مبینّہ طور پر عنابی شراب پینے اور دوسری تعیّشات کے لیے سرکاری رقوم کا استعمال کیا تھا۔

اسرائیلی وزیراعظم نے اپنی اہلیہ کے خلاف فرد جرم کی مذمت کی تھی اور ان کے خلاف الزامات کو بے بنیاد اور دھوکا دہی پر مبنی قرار دیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں مخالف میڈیا کی جانب سے تنقید کا ہدف بنایا جارہا ہے۔ نیتن یاہو کو الگ سے بدعنوانیوں کے الزامات میں فردِ جرم کا سامنا ہے۔ایک کیس میں ان پر ایک ارب پتی جوڑے سے بیش قیمت تحائف وصول کرنے پر فردِ جرم عاید کی گئی تھی۔ ان پر ایسے قواعد وضوابط کو منظور کرنے کا بھی الزام ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کی ٹیلی مواصلات کی بڑی فرم بی ذیق کو کروڑوں ڈالرز کا فائدہ پہنچا تھا ۔

یاد رہے کہ سارہ کے خلاف سب سے سنگین الزامات وزیراعظم ہاؤس کے سابق خانساماں مینی نفتالی نے عائد کیے تھے۔اس خانساماں کو اسرائیلی وزیراعظم نے برطرف کردیا تھا۔اس نے نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے مقبوضہ بیت المقدس میں واقع وزیراعظم کے دفتر کے لیے خرید کیے گئے فرنیچر کو قیصریہ میں واقع اپنے مکان میں ذاتی استعمال کے لیے بھیج دیا تھا۔ انھوں نے مبیّنہ طور پر اپنے ایک خاندانی الیکٹریشن دوست اور لیکوڈ پارٹی کے سابق رکن آوی فہیمہ کو ٹیکس دہندگان کے خرچے پر بجلی کی مرمت کا نجی کام بھی دیا تھا اور اس کام کے جعلی بل تیار کیے گئے تھے۔

صیہونی عدالت نے سارہ نیتن یاہو پر ایک الزام یہ عائد کیا تھا کہ انھوں نے 2009ء سے 2013ء کے درمیان سرکاری رہائش گاہ کی خالی بوتلوں کے عوض ملنے والے ایک ہزار ڈالرز اپنی جیب میں ڈال لیے تھے حالانکہ یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جانی چاہیے تھی۔2013ء میں نیتن یاہو نے ایک ہزار ڈالرز قومی خزانے میں جمع کرا دیے تھے لیکن نفتالی کا کہنا تھا کہ یہ رقم چھے گنا زیادہ ہونی چاہیے تھی۔

 

متعلقہ مضامین

Back to top button