اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشل

پاکستان کا سنی وزیر اعظم بھی توہین صحابہ کا ملزم؟

اگر یہ مان لیا جائے کہ رسول اکرم ﷺ کے دورمیں اور خلفائے راشدین کے ادوار میں مکہ و مدینہ و بلاد اسلامی میں نظام عدل نافذ تھا، اگر یہ مان لیا جائے کہ مرتدین، مانعین زکات، زانی، چور، قاتل، لٹیروں کو سزائیں اس دور میں دی گئیں، تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سزایافتہ افراد عادل نہیں تھے، چوری، قتل، لوٹ مار، دین سے پلٹ جانا، دینی واجبات سے منکر ہوجانا، ایک عام مسلمان کی نظر میں بھی عدل نہیں ہے تو مرتکب افراد عادل کیسے؟؟

تحریر : شیخ غلام حسین / شیعت نیوز اسپیشل
لیجیے، اب پاکستان کے سنی وزیراعظم پر بھی توہین صحابہ کا الزام لگادیا گیا۔ ہوا یوں کہ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں ایک موقع پر اپنے موقف کی وضاحت کے لئے جنگ بدر اور جنگ احد میں طرز عمل میں فرق کی مثال دی جس کی وجہ سے ایک جنگ میں کم تعداد میں بھی مسلمان کامیاب ہوگئے اور دوسری جنگ میں دشمنان اسلام کو فاتح قرار پائے۔ بس یہ تاریخی حقیقت بیان کرنا ایک مخصوص طبقے کے مولوی حضرات نے ”گناہ کبیرہ“ قرار دے ڈالا۔ کالعدم دہشت گرد گروہ سپاہ صحابہ (حالیہ نام اے ایس ڈبلیو جے) یعنی بدنام زمانہ کالعدم دہشت گرد گروہ لشکر جھنگوی کے بزرگوں نے سوشل میڈیاپر واویلا مچادیا، احتجاجی جلوسوں کی دھمکیاں دے ڈالیں۔ لیکن اس ساری صورتحال نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے تو یہ دہشت گردی تکفیری کالعدم ٹولوں کے سرغنہ افراد کو تویہ حق ہی حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے پر انگلی اٹھاسکیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی ماں جو کالعدم جماعت ہے، جس نے کلمہ گو انسانوں کے گلے بھی کاٹے ہیں، جنہوں نے کلمہ گو مسلمانوں کو کافر کافر کے نعروں کی تہمت لگاکر خود گنا ہ کبیرہ کیا ہے بلکہ فتنہ برپا کیا ہے جو قتل سے زیادہ شدید ہے۔ انہیں چاہئے کہ پہلے مقتولین کے قصاص و دیت کی اسلامی سزا سے گذریں، جو بچیں ان پر دیگر اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں اور پھر بھی جو بچے وہ پوری زندگی مقتولین کے ورثاء اور مظلومین سے معافی مانگتے ہوئے تائب ہوکر زندگی گذاریں۔

دہشت گردی تکفیری کالعدم ٹولوں کے سرغنہ افراد کو تویہ حق ہی حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے پر انگلی اٹھاسکیں۔

دوسرایہ کہ کچھ خدا کا خوف کریں۔ ایک طرف تو اسی عمران خان کی تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کے اتحادی بنے ہوئے ہیں۔ ان کالعدم تکفیریوں کے غیر ملکی آقا آل سعود بھی وزیر اعظم عمران خان اور انکی حکومت کے دوست، اتحادی اور شراکت داردکھائی دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف پنجابی محاورے پر عمل پیرا ہیں کہ وچوں وچوں کھائی جا، تے، اتے رولا پائی جا!! منافقت میں پی ایچ ڈی کرنے والا یہ فتنہ پرست ٹولہ کسے بے وقوف بنارہا ہے۔

البتہ ایک عام مسلمان کے لئے ہم سنی وزیراعظم عمران خان کے خلاف اس مہم کی وجہ سے چند دیگر نکات پیش کررہے ہیں۔ اسلام میں جہالت اور دین میں سختی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس لئے علمی نکات پر غور فرمائیں۔بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کیا سنی فقہ کے مطابق صحابہ کرام معصوم ہیں، یعنی جیسے انبیائے کرام علیہم السلام معصوم ہیں، یعنی ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوسکتا، یہ ممکنات میں سے نہیں ہے کہ ان سے کوئی گناہ سرزد ہوسکے۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے اور جو اسلام ہم نے پڑھا ہے، ایمان مجمل، ایمان مفصل، چھ کلمے، کہیں بھی صحابہ کرام پر ایمان لانے کاکوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔یہ ہوا پہلا نکتہ۔

اب آئیے دوسرے نکتے کی طرف۔ سوال یہ ہے کہ اگر معصوم نہیں ہیں تو صحابہ کرام سے غلطی، خطا، گناہ سرزد ہو نا ممکنات میں سے ہے یا نہیں؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ صحابہ کرام معصوم تو نہیں لیکن عادل ہیں۔ اگر اس نظریے کو درست مان لیا جائے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دور میں جزا و سزا کا قانون تھا یا نہیں؟ کسی کے جرم پر سزا اور نیک عمل پر جزا دی جاتی تھی یا نہیں؟؟ اس سوال کو مزید واضح کرتے ہیں آیا رسول اکرم ﷺ کے دور میں محکمہ قضاوت تھا یا نہیں؟

کچھ خدا کا خوف کریں۔ ایک طرف تو اسی سنی وزیراعظم عمران خان کی تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کے اتحادی بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پنجابی محاورے پر عمل پیرا ہیں کہ وچوں وچوں کھائی جا، تے، اتے رولا پائی جا!!

چلیں آج کے دور میں پوچھتے ہیں عدلیہ تھی یا نہیں قاضی یعنی جج ہوا کرتے تھے یا نہیں؟ کیا اس دور میں کسی کو بھی سزا نہیں دی گئی؟ اسکے بعد خلفائے راشدین کے دور کے لئے بھی یہی سوال کہ اس دور میں سزائیں دی گئیں یا نہیں؟ جرائم کا ارتکاب ہوا یا نہیں؟ ہمیں جو تاریخ پاکستان میں پڑھائی گئی یا جس تاریخ کو بر صغیر پاک و ہند کے سنی علمائے کرام نے تحریر کی یا ترجمہ کیا یا مرتب کیا، اس میں ہم نے یہ پڑھا کہ خلیفہ اول کے دور حکومت میں دو عنوان سے بہت زیادہ سزائیں دی گئیں، نمبر ایک مانعین زکات اور دوسرے مرتدین۔
تو دوسرے سوال کا جواب کیا ہے؟؟؟ یہ مانعین زکات اور مرتدین تھے کون؟؟ یہ کون تھے جو دین سے پھر گئے تھے؟ یہ کون تھے جنہوں نے خلیفہ اول کے دور حکومت میں زکات سرکار کو دینے سے انکار کردیا تھا؟؟ یہ افراد کون تھے جنہیں خلفائے راشدین کے دور میں سزائے موت ہوئی، یا ہاتھ کاٹے گئے، یا جوسنگسار کئے گئے، یا جنہیں عہدوں سے معزول کیا گیا یا درے (کوڑے)مارے گئے؟؟؟؟ یہ جو ہم مسلمان پوری دنیا میں اسلام کے نظام عدل کی بڑھک مارتے ہیں، اس نظام عدل کے تحت جو سزائیں رسول خداﷺ کے دور میں اور خلفائے راشدین کے دور میں دی گئیں، یہ سزا یافتہ افراد تھے کون؟؟؟ یہ جو مکہ مدینہ میں آباد تھے یہ کون تھے؟؟ میری آپکی طرح عام مسلمان، یا پھر صحابہ کرام؟؟

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ جو اسلام ہم نے پڑھا، ایمان مجمل، ایمان مفصل، چھ کلمے، تاریخ اسلام، وغیرہ وغیرہ، اس میں آسمانی کتابوں پر ایمان بھی شامل تھا اور سب سے بڑھ کر قران شریف پر ایمان۔ یہ قرآن شریف کا فرمان ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور اسکے اولی الامر کی اطاعت کرو۔ یہ قرآن کا فرمان ہے کہ یہ رسول جو دے دیں اسے لے لو، جس سے منع کریں اسے ترک کردو۔ مطلب کیا؟ مطلب یہ کہ وزیر اعظم عمران خان کی جنگ احد سے متعلق مثال کو اس زاویے سے کیوں نہیں دیکھا گیا؟؟

خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ نے جنگ احد میں جو صف بندی کی تھی، اس میں صحابہ کرام کے جس گروہ کوحکم دیا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے کسی صورت نہ ہٹیں، لیکن وہ وہاں سے ہٹ گئے، یعنی انہوں نے ایک سنگین غلطی کا ارتکاب کیا جس کی وجہ سے دشمنان اسلام جو کہ ہار مان کر راہ فرار اختیار کررہے تھے، ان میں سے ایک ٹولے نے اسی خالی جگہ سے وار کرکے ہاری ہوئی بازی جیت لی تھی۔ یہ غیر متنازعہ اسلامی تاریخ ہے۔تو کیا اس تاریخ کو بیان کرنے پر توہین صحابہ کا الزام بنتا ہے؟ اگر بنتا ہے تو یہ واقعہ توان مولوی حضرات کے اپنے اجداد کی تاریخی کتب میں بھی اسی طرح درج ہے۔ حتی کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب افغانستان ایشو کی وجہ سے مولویوں کی چاندی ہوگئی تھی تب بھی یہ واقعہ پاکستان میں اسی طرح بیان کیا جاتا تھا۔ تو آج ایسی کونسی بات ہوگئی کہ ناراض ہوگئے!!!

غزوہ احد میں جس حکم عدولی کی وجہ سے دشمنان اسلام غالب آئے، وہ قرآن شریف کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی وجہ سے پیش آئے یعنی قرآن، یعنی اللہ کا حکم کہ رسول ﷺ کی اطاعت کرو، اللہ کا حکم کہ جس سے رسول ﷺ منع کریں اس سے باز رہو، اسے ترک کردو، اسکو چھوڑ دو۔ صحابہ کرام کا احترام اپنی جگہ مگر غلطیوں، خطاؤں کا تذکرہ توہین نہیں ہوا کرتی۔

یعنی ٹائمنگ! چلیں انکی اس ٹائمنگ پر پھر کبھی غور کریں گے فی الحال، انکے ردعمل سے جن سوالات نے جنم لیا ہے اس میں ان سے جس ایک سوال کا جواب سب سے پہلے درکار ہے وہ ہے عدل و عادل کی تشریح۔ ان کی نظر میں عدل اور عادل کی تعریف ہے کیا؟ لغوی تعریف تو سبھی کو معلوم ہے لیکن انہوں نے ایسی کونسی اصطلاحی تعریف وضع کررکھی ہے کہ جو دیگر ماہرین لسانیات وماہرین ادبیات و دینیات سے حتیٰ کہ دین اسلام کے دیگر پیروکاروں سے مخفی ہے؟!

اگر یہ مان لیا جائے کہ رسول اکرم ﷺ کے دورمیں اور خلفائے راشدین کے ادوار میں مکہ و مدینہ و بلاد اسلامی میں نظام عدل نافذ تھا، اگر یہ مان لیا جائے کہ مرتدین، مانعین زکات، زانی، چور، قاتل، لٹیروں کو سزائیں اس دور میں دی گئیں، تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سزایافتہ افراد عادل نہیں تھے، چوری، قتل، لوٹ مار، دین سے پلٹ جانا، دینی واجبات سے منکر ہوجانا، ایک عام مسلمان کی نظر میں بھی عدل نہیں ہے تو مرتکب افراد عادل کیسے؟؟

[contentcards url=”https://shiite.news/ur/ksa-night-club/” target=”_blank”]

اور یہ کونسا عدل ہے کہ سنی وزیر اعظم عمران خا ن تو تاریخ کے ایک واقعہ کو بیان کرنے پر گناہ کبیرہ کا مجرم قرار دے دیا جائے جبکہ وہ بات غیر معصوم افراد سے متعلق ہے جبکہ اس کائنات کے معصوم ترین کامل ترین مبارک ترین نبی و رسول خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی حکم عدولی کرنے والے بعض افراد کی حکم عدولی کو اجتہادی خطا قرار دے دیا جائے۔ حضور اجتہادی خطا ہے تو میری اس تحریر سے عدم اتفاق کرنے پر اس تحریر کو بھی اجتہادی خطا قرار دے دیں، وزیر اعظم عمران خان کی اس بات کو بھی اجتہادی خطا قرار دے دیں۔

یہ کونسا اسلام ہے جس میں مسلمانوں کا ایک طبقہ جو کہ معصوم بھی نہیں ہے،وہ چاہے اللہ کے محبوب ترین بندے اور نبی و رسول بلکہ سردار انبیاء کے حکم کی خلاف ورزی کرے، تب بھی اجتہادی خطا کے ”مقدس غلاف “ میں ڈال کر بچالیا جائے اور میرے آپکے جیسے عام مسلمان کی گردن پتلی سمجھ کر پکڑ لی جائے۔ سنی وزیراعظم عمران خان نے سارے صحابہ کرام کے لئے تو یہ بات نہیں کہی ہے بلکہ صرف غزوہ احد اور غزوہ بدر کے مابین موازنہ کرکے ایک مثال بتائی ہے۔اس پر اتنا واویلا مچانے کی ضرورت نہیں تھی۔ بات کا بتنگڑ بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔

غزوہ احد میں جس حکم عدولی کی وجہ سے دشمنان اسلام غالب آئے، وہ قرآن شریف کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی وجہ سے پیش آئے یعنی قرآن، یعنی اللہ کا حکم کہ رسول ﷺ کی اطاعت کرو، اللہ کا حکم کہ جس سے رسول ﷺ منع کریں اس سے باز رہو، اسے ترک کردو، اسکو چھوڑ دو۔ صحابہ کرام کا احترام اپنی جگہ مگر غلطیوں، خطاؤں کا تذکرہ توہین نہیں ہوا کرتی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button