اہم ترین خبریںمقالہ جات

ایران پر منڈلاتے جنگ کے بادل | لیکن گرجنے والے بادل برسا نہیں کرتے

امریکہ کی جانب سے ایران پر تازہ الزام دھرا گیا ہے کہ وہ مغربی عراق اور شام میں ایران کی حامی شیعہ افواج کے ذریعے امریکہ پر حملے کرسکتا ہے۔

خلیج فارس پر جنگ کے بادل گرج رہے ہیں لیکن گرجنے والے برسا نہیں کرتے اس لئے امریکہ کی جنگ کی کھلی دھمکیوں کے باوجود تیسری عالمی جنگ نہیں ہوگی. اس کی وجہ حسن نصراللہ کی حزب اللہ کی اسرائیل پر بیک وقت ہزاروں راکٹ داغنے کی صلاحیت بھی ہے اس طرح ایران کے تل ابیب سمیت اسرائیل کے 5 بڑے شہروں کو چشم زدن میں نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائیلوں کو کسی بھی Iron doomنظام سے روکنا عملا ناممکن ہوگا. جب مختلف زاویوں سے ہزاروں ایرانی میزائیل ان صہیونی تہذیبی مراکز پر جھپٹیں گے. کیا نائن الیون کی طرز پر کچھ اور ہونے جارہا ہے؟ جس سے ایران پر حملہ کرنے کا جواز پیدا کیاجائے؟ کیا یہ اسلامی ممالک پر حملوں کی نئی لہر کاآغاز ہے؟ امریکہ چوری اور سینہ زوری کی نئی مثال لکھنے جارہا ہے. سولہویں امریکی صدر ابراہام لنک اِنکے نام سے موسوم امریکی بحری بیڑہ، ہلاکت خیز 70 ہزار پائونڈ بموں سے لیس بی 52بمبار طیارے مشرق وسطیٰ روانہ ہوچکے. امریکیوں کا تازہ پینترا یہ ہے کہ امریکی فوج پر ایران کے متوقع حملوں کی اطلاعات ہیں.ایران کیخلاف اس مضحکہ خیز الزام پر ہنسی نہیں رونا آتا ہے ؟ امریکہ جیسے دُہرے معیار کے حامل ملک کی بات آنکھیں بند کرکے جس نے تسلیم کی، اس کا انجام عراق جیسا ہوا.اتنے بڑے اسلامی ملک اور اپنے دیرینہ حلیف کی اینٹ سے اینٹ بجادی بعد میں کہا کہ اطلاع غلط تھی۔ 25لاکھ لوگ غلط اطلاع پر پیوند خاک ہوگئے. کوئی مہذب ضمیر جاگا، نہ حقوق کے لئے چلتی زبانوں کو توفیق حرکت ہوئی، اقوام متحدہ، عالمی برادری اور انصاف پسند سب کے سب ہی گونگے، بہرے اور اندھے ہوگئے۔ ایران کے خلاف جنگ کا آغاز کیسے ہوگا؟

یہ بھی پڑھیں: ایرانی قوم کا امریکہ کے مقابلے میں حتمی انتخاب مزاحمت ہے، آیت اللہ خامنہ ای

اس پر بے اختیار قلندرلاہوری حضرت علامہ اقبالؒ کی حضرت خضرؑ سے مکالمہ پر لکھی ’خضرراہ‘ یاد آگئی جس میں آپ حضرت خضرؑ سے کچھ یوں سوال فرماتے ہیں

آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

پراسرارستاروں بھری رات میں دریا کنارے کھڑے حضرت علامہ اقبال کو جواب ملتا ہے کہ

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحربیکراں ہے زندگی
خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو
پختہ ہوجائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو
ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
خون اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری

خلیج فارس میں بڑھتی جنگ کی شدت

امریکہ اور چین کے درمیان لفظی جنگ تیز ہورہی ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران پر تازہ الزام دھرا گیا ہے کہ وہ مغربی عراق اور شام میں ایران کی حامی شیعہ افواج کے ذریعے امریکہ پر حملے کرسکتا ہے۔ لڑائی کا اصل ہدف شام ہے جہاں امریکی قدم زمین میں دھنس گئے ہیں۔ یہ امریکیوں کو جھنجھلارہا ہے۔ ایرانی حکمت عملی نے امریکہ کو ایسی گھاٹی میں دھکیل دیا ہے۔ جہاں سے وہ نہ نکل سکتا ہے اور نہ ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔  جس بنا پر براہ راست امریکہ کو ایران سے جنگ کرنا پڑیگی۔ خود اسرائیلی اخبارات امریکی صدر ٹرمپ کو بھجوائی گئی انٹیلی جنس رپورٹس کا حوالے سے دعویٰ کررہے کہ ایرانی حمایت یافتہ گروہ امریکی فوجوں پر حملہ کرسکتے ہیں۔ ساری تصویر کو دیکھا جائے تو یہ محض بہانہ اور حملہ کرنے کیلئے گھڑا گیا تازہ فسانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس کیس میں مزید مرچ مصالحہ ان اطلاعات کو شامل کرکے ملایاگیا ہے کہ فلسطینیوں کی مقتل گاہ غزہ کی پٹی سے ایرانی خفیہ تنظیم اسلامی جہاد نے حماس کی مدد سے چھ سو راکٹ اسرائیل پر داغے ہیں۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے بیان داغا ہے کہ ’’امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن ہم کسی بھی حملے کا جواب دینے کیلئے پوری طرح تیار ہیں، یہ حملہ کسی خفیہ ذریعے سے ہویا پاسداران انقلاب سے ہو۔‘‘

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے منگل کو غیراعلانیہ عراق کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ ’’کشیدگی رونما ہوسکتی ہے جس کے لئے ہم تمام ممکنہ اقدامات کررہے ہیں، سکیورٹی کے لحاظ سے بھی اور صدر ٹرمپ کے پاس وسیع امکانات ہیں کہ وہ کسی کارروائی پر جواب میں کوئی فیصلہ کریں۔‘‘

 

یہ بھی پڑھیں: امریکہ کے ایران مخالف اقدامات کارگر ثابت نہیں ہوں گے، روس

ایران پر عالمی پابندیاں

ایران پر تیل کی پابندیاں پہلے ہی لگائی جاچکی ہیں جو اسکی آمدن کا بنیادی اور بڑا ذریعہ ہے تاکہ ایک طرف معاشی طورپر اس کے ہاتھ باندھ دئیے جائیں اور دوسری جانب اس پر فوجی دباو بڑھادیا جائے۔ آٹھ کروڑ آبادی والے ایران کی ساڑھے پانچ لاکھ فعال فوج ہے، زمین سے مار کرنے میزائل، کروز میزائل اور دیگر ہتھیار ہیں۔ امریکی حملہ کے جواب میں ایرانی صدر حسن روحانی نے یورینئیم کی افزودگی پھر سے شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران افزودہ یورینیئم کے ذخائر ملک میں رکھے گا، بیرونِ ملک فروخت نہیں کیا جائیگا۔امریکیوں کا ردعمل عمل ہے کہ ایران نے بین الاقوامی جوہری معاہدے سے جزوی دستبرداری کا فیصلہ جان بوجھ کر مبہم رکھا ہے۔ایران کا اقدام جوہری بلیک میل کے مترادف ہے۔اس سے پہلے امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ 2015ء میں طے پانے والے عالمی جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کے ایک سال بعد تہران نے اعلان کیا کہ وہ معاہدے کے کچھ اہم نکات سے دستبردار ہو رہاہے۔ ایرانی صدر نے انتہائی حد تک افزودہ یورینیئم کی پیداوار 60 روز میں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ معاہدے کے دیگر فریقین روس، فرانس اور چین نے ایران کے اعلان کے بعد دوبارہ سے جوہری معاہدے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ جوہری معاہدے کا مقصد ایران کو اقتصادی پابندیوں سے چھوٹ دے کر اسکے جوہری عزائم کو روکنا تھا۔

ایران کی پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دینا

8اپریل 2019ء کو امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے خصوصی فوجی دستے پاسداران انقلاب کو غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔ یہ ایک ایسا اعلان تھا جسے خود عالمی میڈیا نے کے مطابق جس کی مثال نہیں ملتی۔ پہلاموقع تھا کہ امریکہ کسی دوسرے ملک کی فوج کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ پابندیوں سے ایران کی معیشت متاثر ہوئی ہے، ان کی کرنسی ریکارڈ کم سطح پرآگئی ہے۔ سالانہ افراط زر کی شرح چار گنا بڑھ گئی ہے۔ ایک طرف غیرملکی سرمایہ کاروں کو روکا جارہا ہے تو دوسری جانب ملک کے اندرحکومت مخالف مظاہروں کو ہوا دی جارہی ہے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے معاہدے کے باقی ماندہ تمام فریقین پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر زوردیا ہے۔ برطانوی دفترخارجہ نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ایران کا فیصلہ ’ناپسندیدہ‘ تھا۔فرانسیسی وزیر دفاع فلورنس پارلی کا کہنا تھا کہ یورپی طاقتیں پوری کوشش میں ہیں کہ کسی طرح معاہدہ بچ جائے۔ اگر معاہدے کی تعمیل نہ کی گئی تو اس کے ممکنہ طورپر پابندیوں سمیت دیگر نتائج نکل سکتے ہیں۔

امریکہ کس کس کے مفاد کیلئے ایک اور جنگ بھڑکانے جارہا ہے؟ آنے والے وقت میں ہم دیکھیں گے۔ ایران کے ساتھ مسائل ہونے سے گوادر کے متاثر ہونے کی بھی باتیں کی جارہی ہیں۔ ایک نیا طوفان کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ایران اور پاکستان پہلے ہی کئی مسائل کا شکار ہیں۔

محمد اسلم خان

 

تحریر: محمد اسلم خان

بشکریہ: نوائے وقت

متعلقہ مضامین

Back to top button