پاکستان

شیعہ جوانوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف شیعہ علماءکونسل پنجاب کے احتجاجی مظاہرے

شیعہ علماء کونسل کے زیراہتمام صوبائی صدر علامہ سید سبطین حیدر سبزواری کی اپیل پر صوبے بھر میں لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور غیر آئینی، غیر قانونی اغوا کیخلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے

شیعت نیوز: شیعہ علماء کونسل کے زیراہتمام صوبائی صدر علامہ سید سبطین حیدر سبزواری کی اپیل پر صوبے بھر میں لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور غیر آئینی، غیر قانونی اغوا کیخلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ تمام ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹرز پر احتجاجی مظاہروں سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے مطالبہ کیا کہ کراچی سے 100 اور اس کے علاوہ ملک بھر سے جہاں سے بھی شیعہ نوجوانوں یا دوسرے سیاسی کارکنوں کو اٹھایا گیا ہے، اگر وہ مختلف مقدمات میں ملوث بھی ہیں، ان کو بھی عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ پاکستان مہذب ملک ہے، جس کا آئین، عدالتیں اور پارلیمنٹ ہے لیکن یہاں انسانی حقوق کی ایسی پامالی کی جا رہی ہیں کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

علامہ سبطین سبزواری نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو لاپتہ افراد کی بہت باتیں کیا کرتے تھے لیکن اب جب وہ وزیراعظم بنے تو اس پر خاموش کیوں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی بھی انسانی حقوق کی بہت باتیں کیا کرتے ہیں لیکن اپنے کراچی گھر کے باہر احتجاجی دھرنا دینے والے افراد کو جواب دیں کہ ان کے لواحقین کو کون اٹھا کر لے گیا؟ انہوں نے کہا کہ کراچی میں احتجاجی دھرنا کسی تنظیم کی کال پر نہیں دیا گیا بلکہ یہ لوگ خود اکٹھے ہوئے ہیں اور لوگوں نے اپنے لواحقین کی بازیابی کیلئے ہیں۔

علامہ سید ساجد علی نقوی متعدد بار واضح کر چکے ہیں کہ ایسے حالات پیدا نہ کیے جائیں کہ لوگ خود معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور ہم نہیں چاہتے کہ ملک کے حالات خراب ہوں۔ اس لیے ادارے حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور جن افراد کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرکے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے انہیں واپس ان کے لواحقین کو ملوایا جائے اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ حالات کو خراب کیا جائے لیکن اگر ہمیں سانس نہ لینے دیا گیا اور دیوار سے لگایا گیا تو پھر علامہ ساجد نقوی مجبور ہوں گے کہ وہ احتجاج کی کال دیں اور پھر حالات حکومت کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔ ان کا کہ حکومت اور ریاستی اداروں کو پتہ ہے کہ شیعہ نوجوانوں کو کس نے اغوا کیا ؟ تو انہیں رہا کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا اغوا کنندگان اتنے مضبوط ہیں کہ قانون کی دھجیاں اڑا دیں؟

ایس یو سی کے صوبائی صدر نے کہا کہ کسی نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جبری گمشدگیوں کی اجازت اسلام دیتا ہے اور نہ ہی آئین پاکستان؟ تو یہ کون ہیں جو آئین سے بالاتر نوجوانوں کو اٹھا رہے ہیں؟ عدالتوں کے احکامات پر عمل نہیں کر رہے اور اگر احتجاج کیا جاتا ہے یالاپتہ افراد کی موجودگی بارے میں پوچھا جاتا ہے تو نامعلوم فون نمبروں سے دھمکیاں دی جاتی ہیں؟ آخر یہ کون لوگ ہیں؟ کیا ریاست کے اندر کوئی اور ریاست قائم ہو چکی ہے؟ عام آدمی کو تشویش ہے کہ کیا اس ملک میں آئین اور قانون کی حاکمیت ہے یا نامعلوم افراد کی جو شیعہ کو قتل بھی کرتے ہیں اور اغوا بھی؟

متعلقہ مضامین

Back to top button