پاکستان

امریکہ اور بعض عرب ممالک پاک ایران تعلقات میں بہتری نہیں چاہتے، علامہ جواد نقوی

شیعت نیوز: تحریک بیداری امت مصطفی اور جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے کہا ہے کہ ایران اور پاکستان برادر ہمسایہ اسلامی ممالک کے درمیان تاریخی سیاسی، ثقافتی اور تاریخی ہیں۔ جنہیں برقرار رکھنا دونوں ممالک کیلئے چیلنج بن چکا ہے، جس میں امریکہ اور سعودی عرب کا منفی کردار بہت زیادہ ہے، جب بھی ایران اور پاکستان قریب آنے لگتے ہیں میڈیا کے ذریعے ایسے ایشوز شروع کر دیئے جاتے ہیں جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا مگر دونوں کے درمیان قوتیں حالات بڑے خراب کر دیتی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اس دورے سے لگتا ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہو، اس کے پیچھے عربی ممالک ہیں، امریکہ کی قیادت میں جو افواج بن رہی ہیں، ان میں پاکستان شامل نہیں ہوگا، اس پر معافی مانگنے کو کہا جا رہا ہے، اس قدر ان کو ناگوار گزرا موثر افراد کو یہ غصہ وزیراعظم پر نہیں بلکہ یہ عربی پیسہ بول رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سفارتخانہ میں فوجی ٹریننگ سینٹر پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو صرف برا ماننے کی بجائے، سفارتخانہ کو تالہ لگانے کا حکم دینا چاہیے اتنی جنگی تیاری پاکستان کے اندر کیوں کر رہا ہے؟

مسجد بیت العتیق جامعہ عروة الوثقیٰ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چند سال پہلے ایرانی صدر کی پاکستان آمد سے پہلے اعلان کر دیا گیا کہ ایران سے پکڑا ہوا بھارتی جاسوس کلبھوشن پاکستان نے پکڑ لئے ہیں جبکہ وہ پہلے سے پکڑا ہوا تھا، ظاہر ہے جب ایرانی صدر پاکستان آیا ہے تو ایک دن پہلے یہ بیان دیا گیا اور پاکستانی وزیراعظم ایران گیا ہے تو ایک دن پہلے یہ بیان داغا گیا کہ کوسٹل ہائی وے پر 14 اسکیورٹی اہلکاروں کے قاتل ایران سے آئے تھے۔

انہوں نے کہاکہ جس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے اندر کچھ عناصر ہیں جو ایران اور پاکستان کے تعلق کو قائم نہیں ہونے دینا چاہتے، پاکستان جب آزاد ہوا تو ایران نے پاکستان کو سب سے پہلے قبول کیا اور ایران میں جب انقلاب آیا تو پاکستان نے اس کو پہلے قبول کیا لیکن افغان جنگ کے بعد پاکستان اور ایران کے درمیان دوستی کمزور ہوئی، اب پاکستان اور ایران کے درمیان پاکستان اور ایران کی دوستی کو برقرار رکھنا ایک چیلنج ہے۔

یہ بھی پڑھیں : سعودی عرب امریکہ کا 80 فیصد اسلحہ خریدتا ہےاور یمن کے معاملے پر منافقت دکھا رہاہے، علامہ سید جواد نقوی

ان کا کہنا تھاکہ اگر ہم ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچیں تو ایران کیساتھ تعلقات میں بہتری ہمارے قومی مفاد میں ہے، چونکہ ایران کے پاس تیل اور گیس موجود ہے، جس سے پاکستان مستفید ہو سکتا ہے، ایران سے گیس لیکر دوسرے ملکوں کو بیچ بھی سکتا ہے، جس کیلئے زمینی سرحد پر موجود ہے، اسی طرح پاکستان ایران کی بھی مشکلات حل کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کو اس وقت ضرورت بھی ہے اور بھارت کی طرح پاکستان کے نخرے برداشت کرنے کیلئے تیار ہو جائے گا، یہ بات اچھالی گئی، یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھی کہ تجارتی معاہدے پر بات نہیں ہونی اور نہیں ہوئی۔ واپس آنے کے بعد وزیراعظم کی جو درگت بنی ہے وہ کسی کی بھی نہیں بنی۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات خراب کرانے میں سعودی عرب کو زیادہ دلچسپی ہے کہ یہ مشکلات بڑھیں، چونکہ پاکستان گوادر کو چین کے حوالے کر چکا ہے اس کے باوجود سعودی ریفائنری کی بات کی ہے جو نہ بنے گی اور نہ بننی ہے۔ ایران کے دشمن نے پاکستان کی سرحد لی ہے اور پاکستان کی دشمن نے ایران کی سرحد لی ہے۔

علامہ جواد نقوی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا ایران میں بیان کو دوسرے معنی پہنا کرکے تنقید کی گئی حالانکہ انہوں نے کہیں حکومت یا فوج کے ملوث ہونے کی بات نہیں کی بلکہ اس طرف اشارہ تھا کہ دہشتگرد اگر ماضی میں پاکستانی زمین استعمال کرتے رہے ہیں تو ان کے دور حکومت میں نہیں ہوگا۔

ان کا کہناتھاکہ پاکستانی افواج کی وجہ سے یہ دہشتگرد پکڑے گئے ہیں اور پاکستان افواج کی وجہ سے ایرانی یرغمال واپس کیے گئے ہیں، اس بیان کو اتنا اچھالا جا رہا ہے کہ گویا ان کی حکومت کرنے کے درپے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس دورے سے لگتا ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہو۔ اس کے پیچھے عربی ممالک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو کو وزیر اعظم کی طرف سے صاحبہ کہنا ان کے عہدے سے مناسبت نہیں رکھتا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button