پاکستان

داعش میں شمولیت کیلئے بہک گئے تھے،2 گرفتار نوجوانوں کا اظہار ندامت

داعش میں شمولیت کیلئے شامجانے والے دو نوجوان محکمہ انسداد دہشتگردی کے ہاتھوں گرفتارکرلیے گئے ہیں، دونوں نوجوانوں سے ’’جیونیوز‘‘  نے خصوصی گفتگو کی جس میں اُنہوں نے بتایا کہ وہ ٹوئیٹر  پر شام میں موجود داعش کے کرتا دھرتائوں سے رابطے میں آئے اور پھر انسانی اسمگلنگ کے ذریعے انھیں ایران سے ترکی جانا تھا جہاں سے انھیں داعش شام بلا لیتی۔ دونوں نے کہا کہ وہ اپنے کیے پر نادم  ہیں اور دیگر نوجوانوں سے کہتے ہیں  کہ وہ غلط راستے پر نہ چلیں ۔ دونوں نوجوانوں کو محکمہ انسداد دہشتگردی نے کراچی سے گرفتار کیا۔ ایک  نوجوان ’’بلال رند‘‘ بوٹ بیسن کا رہائشی ہے جبکہ دوسرا نوجوان ’’زین شاہد‘‘ ناظم آباد میں رہتا ہے۔ دونوں نوجوان ٹوئیٹر کے ذریعے شام میں داعش سے رابطے میں آئے، دونوں داعش کے  ابو خالد اور ابو عقبہ سے رابطوں میں تھے،  دونوں کو ٹوئٹر سے  موبائل فون ایپلیکیشن شیور اسپاٹ پر یکجا کیاگیا۔ بلال رند 1986 میں پیدا ہوا، دبئی اور کراچی میں مشترکہ تعلیم حاصل کی،  بلال امریکن یونیورسٹی دبئی میں بھی زیر تعلیم رہا پھر پڑھائی چھوڑ کر کراچی منتقل ہو گیا، بلال کا تعلق دبئی کے کھاتے پیتے گھرانے سے ہے۔ دوسرا نوجوان  زین شاہد 1989میں سعودی عرب میں پیدا ہوا،  ابتدائی تعلیم سعودی عرب اور پھر کراچی میں حاصل کی،  زین نے اقرا یونیورسٹی میں بی ایس میں داخلہ لیا لیکن مکمل نہیں کرپایا، اس نے گھر چھوڑتے ہوئے کبھی واپس نہ آنے کا خط بھی والدین کو لکھا۔ پکڑے گئے دونوں نوجوان ایک دوسرے کونہیں جانتے تھے لیکن ان کا رابطہ کرایا گیا اور اُن دونوں کے درمیان پہلی ملاقات  بوٹ بیسن کی مسجد میں ہوئی۔  دونوں کو   ایران سے ترکی پہنچنے کا کہا گیا تھا اور  ترکی سے داعش کے کارندوں نے انھیں شام لیجانے کی پیشکش کی تھی۔ دونوں نوجوانوں نے انسانی اسمگلر حسین کو فی کس 2لاکھ 60 ہزار ادا کیے،  پہلی قسط ایک لاکھ 60 ہزار کی تھی جو کراچی میں ادا کی گئی جبکہ  دوسری قسط گوادر پہنچنے کے بعد انسانی اسمگلر کو ادا کی گئی۔ دونوں نوجوان  زمینی راستے سے گوادر  اور وہاں سے سمندری راستے ایرانی شہر بندیان پہنچے ۔ بندیان پہنچنے کے بعد دونوں کو اسمگلرز نے ساتھ لیا اور ایک ہفتے سیف ہائوس میں چھپادیا ،  اس کے بعد چور راستے سے سفر شروع ہوا جو جنگلوں میں پیدل چلنے تک بھی جاری رہا، سفر کے دوران انسانی اسمگلرز دن بھر میں کھانے کے لیے ایک کھجور اور پانی کی ایک بوتل دیتے تھے، ایک ہفتے کے سفر کے بعد جب دونوں بندر عباس کے قریب پہنچے تو ایرانی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے،  ایرانی فورسز نے دونوں کو ڈی پورٹ کیا، کوئٹہ میں تین ہزار جرمانہ ہوااور پھر دونوں کراچی پہنچے تو سی ٹی ڈی کے ہاتھوں گرفتار کرلیے گئے۔ دونوں نوجوانوں نے ’’جیونیوز‘‘ کو مزید بتایا کہ  داعش کے کارندے ہمیں شام کی پر کشش وڈیوز دکھاتے تھے، ہمیں یہ بتایا گیا کہ شام ایک انتہائی پر کشش اور فلاحی ریاست ہے، شام میں صرف ’’لڑنے‘‘ کا نہیں بلکہ اور بھی کئی کام ہیں، ہمیں کہا گیا کہ وہاں بچوں کو تعلیم بھی دی جارہی ہے، ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ تمھیں 400 سے500 ڈالرز وظیفہ بھی ملے گا، دونوں نوجوانوں  نے مزید بتایا کہ  ہم بہک گئے تھے اور جذبات میں آکر شام جانے کا فیصلہ کیا، ہم نوجوانوں سے کہیں گے کہ غلط راستے پر نہ چلیں۔ ان کو گرفتار کرنے والے سی ٹی ڈی ونگ کے سربراہ راجہ عمر خطاب نے بتایا کہ  دونوں نوجوانوں کی گرفتاری  معاشرے کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، بچوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت ضرور دیں لیکن ان پر نظر بھی رکھیں، پولیس کے علاوہ  والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کی بہتری کا کام کریں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button