مقالہ جات

ستارہ و تمغہ جرآت، شہید عباس علی، نظر انداز کیوں۔؟

میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر مملکت نے وزیراعظم کے مشورے سے آرمی پبلک سکول پشاور کے شہید ہونے والے طلبا اور سٹاف ممبرز و ٹیچرز کو ستارہ جرآت و تمغہ جرآت دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعزازات یوم پاکستان کے دن دیئے جائیں گے۔ یاد رہے پاکستان میں پہلے سے رائج طریقہ کار کے مطابق ستارہ جرآت و تمغہ جرآت کے لئے نام تجویز کرنے اور پھر منظوری ہونے میں تقریبا ایک سال اور بعض اوقات کئی سال کا عرصہ لگ جاتا ہے، لیکن آرمی پبلک سکول کے معاملے میں ہنگامی طور پر یہ اعلان کیا گیا۔ جس طرح اس ہولناک واقعے کے بعد پھانسی و سزائے موت پر فی الفور عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ خوارج نما درندہ صفت طالبان دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے لئے اس طرح کے فیصلے قابل تحسین ہیں، لیکن ایک بڑا سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے چند ہفتے بعد پشاور شہر کے پوش علاقے حیات آباد میں امامیہ مسجد پر آرمی پبلک سکول کی طرز پہ طالبان دہشت گردوں نے ایک اور خونی حملہ کیا۔ اس خونی حملے میں ہینڈ گرینڈ دھماکے اور فائرنگ کے باوجود خودکش حملہ آور کو گردن سے دبوچ کر ہلاک کرکے سینکڑوں نمازیوں کی جانیں بچانے والے جری نڈر و بہادر شہید عباس علی کی جرآت و بہادری کی لازول داستان کو ستارہ جرآت و تمغئہ جرآت دینے میں نظر انداز کیا گیا۔؟

حکومت کی طرف سے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے اب بھی دہری پالیسی اور دہشت گرد طالبان کے خلاف مقاومت کرنے والے عوام بالخصوص شہید عباس علی کی جرآت و بہادری کو نظر انداز کرنا ایک طریقے سے خوارج نما درندہ صفت طالبان دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ شہید عباس علی بھی اپنی جان بچانے کے لئے کسی دیوار کے کونے میں جس طرح آرمی پبلک سکول کے طلبا اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردوں کے حملوں کے بعد لوگ جان بچاتے ہیں، یا پھر کسی میز کے نیچے چھپ سکتے تھے، لیکن نڈر و بہادر شہید عباس علی کا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے، جہاں شجاعت و بہادی اور شہادت کا جزبہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ میں پلاتی ہیں۔ پاک افغان بارڈر پر واقع جغرافیائی و سٹرٹیجک اہمیت کے حامل جنت نظیر علاقے پاراچنار جس کے بہادر و دلیر جانبازوں اور عوام نے خوارج نما درندہ صفت طالبان دہشت گردوں کے روحانی باپ جنرل ضیا کے دور سے جنریلی ریاست کے پالے طالبان دہشت گردوں کے مسلح لشکروں کا ڈٹ کر مقابلہ اور مزاحمت کرکےڈھائی ہزار سے زیادہ شہدا اور دس ہزار سے زیادہ زخمی و مجروحین کی قربانیاں دے کر بہادری کی لازول داستانیں رقم کرکے پاراچنار کی سرزمین کو شہدا کی دھرتی اور دہشت گرد طالبان کو میدان میں شکست دینے والے علاقے کا نام دیا ہے۔ بہادر و جری اور نڈر شہید عباس علی اس دھرتی و شہدا کے گلستان پاراچنار کا ایک نمایاں سرخ پھول بن گیا ہے۔ جس کے مزار پر عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کے لئے پاراچنار کے بہادر جوانوں بزرگوں و بچوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، لیکن افسوس صد افسوس دہشت گردی اور طالبان دہشت گردوں کے خلاف بلند و بالا تقاریر و زبانی جمع خرچ اور دعوے کرنے والے کسی بھی اعلٰی سول و ملٹری حکام کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ بہادر و جری شہید عباس علی کے مزار پر حاضری دے سکیں، یا پھر ان کے گھر والوں کی داد رسی کر سکیں، اور نہ ہی سول سوسائٹی اور ہیومن رائٹس گروپس کے نمائندوں کو یہ توفیق نصیب ہوئی، جو دہشت گردی اور دہشت گرد طالبان کے خلاف کافی حد تک سرگرم رہتے ہیں، لیکن شہید عباس علی کے معاملے میں سول سوسائٹی بھی مکمل خاموش ہے۔؟ نہ جانے کیوں۔؟

شاید ایک وجہ یہ ہو کہ مختلف اداروں اور حکومتوں میں موجود مٹھی بھر تکفیری ذہنیت اور دہشت گرد طالبان کے حامی طالبان دہشت گردوں کے روحانی باپ جنرل ضیا کی باقیات ایک مضبوط لابی (جن کے آباواجداد نے تکفیریت اور دہشت گردی میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح تک کو نہیں بخشا اور یہی تکفیری گروہ اب بھی قائداعظم کو کافر اعظم سمجھتا ہے، ایسے نمک حرام و احسان فراموشوں کے لئے شہید عباس علی کو نظر انداز کرنا کونسی بڑی بات ہے)۔ طالبان دہشت گردوں کے روحانی باپ جنرل ضیا کی باقیات اگر ایک طرف شہید عباس علی کی قربانی کو چھپانا چاہتے ہیں، تو دوسری طرف شہید عباس علی کے آبائی علاقے پاراچنار سے انہیں یہ شکایت بھی ہے۔ کہ جب سن اسی کی دہائی میں جنرل ضیا سے لے کر سن انیس سو چھیانوے میں جنرل (ر) نصیر اللہ بابر کے ہاتھوں پاراچنار فسادات کے بہانے افغانستان میں ہزاروں طالبان بھیج کر افغانستان میں دہشت گرد طالبان حکومت کے قیام اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جنرل پرویز مشرف کے جنریلی ریاست میں پاک افغان بارڈر پر واقع پارا چنار کے ذریعے نام نہاد گڈ طالبان (یاد رہے بعد میں یہی نام نہاد گڈ طالبان بیڈ طالبان اور آستین کے سانپ بنتے گئے جنہوں نے جی ایچ کیو، کامرہ مہران و نیول بیس اور آخر کار آرمی پبلک سکول میں حملے کیئے)۔ پاراچنار کے راستے افغانستان بھیجتے رہے، شکر ہے کہ اب جنرل پرویز مشرف نے تو اب کھلے عام اس جرم کا اعتراف کرلیا، لیکن پاکستان میں جنرل مشرف کو سزا کون دےگا۔؟

پاک افغان بارڈر پر واقع پاراچنار کے جری و بہادر عوام کی اکثریت نے پارا چنار کے راستے افغانستان بھیجے جانے والے طالبان اور اس دہشت گردی کے خلاف مزاحمت (ہاں چند گنے چنے اور ضمیر فروش درباری عمائدین اور نام نہاد قبائلی مشران یا ملکان حتی کہ بعض درباری ملاوں تک نے طالبان دہشت گردوں کے افغانستان بھجنے پر خاموشی و رضامندی اختیار کی۔) لیکن پاراچنار کی اکثریت عوام نے اس دہشت گردی کے خلاف احتجاج اور میدان عمل میں مزاحمت کی، کیونکہ ایک علاقائی مقولے کے مطابق اگر آپ کسی کے گھر پتھر بھیجو گے تو پھر اپنے گھر میں پھول کی امید نہ رکھ۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے بدلےجنرل پرویز مشرف دور میں پانچ سال تک پاراچنار کے عوام کا بدترین محاصرہ اور اقتصادی ناکہ بندی کرکے ٹل پاراچنار شاہراہ کو صرف اور صرف طالبان مخالف پاراچنار کے طوری و بنگش قبائل کے لئے بند کرکے غزہ ثانی بنا دیا گیا، حالانکہ یہی ٹل پاراچنار شاہرا سول و ملٹری حکام اور اورکزئی ایجنسی خیبر ایجنسی وزیرستان حتی کہ جنوبی پنجاب سے آنے والے تکفیری دہشت گرد طالبان گروہوں اور نام کی حد تک کالعدم تنظیموں کے لئے کھلی رہی۔ جو ایک طرف پاراچنار کے عوام پر حملے کرتے رہے اور دوسری طرف پاراچنار کے راستے افغانستان جا کر کاروائیاں کرتے رہے۔ اس دوہری پالیسی یا ڈبل گیم میں کچھ حد تک کمی تو ضرور آئی ہے، لیکن یہ کھیل اب بھی جاری ہے، اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ افغانستان و پاکستان بالخصوص بارڈر پر واقع قبائلی عوام بالخصوص پارا چناریوں کا ناحق خون جانے کب تک بہتا رہے گا۔

ریاستی سطح پر پاراچنار کے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک بھی روا رکھا گیا ہے۔ پاراچنار کے لئے کئی دہائیاں پہلے منظور شدہ فاٹا میڈیکل کالج کی دوسرے قبائلی علاقے میں منتقلی کی کوشش، کئی سال تک پاراچنار تا پشاور چلنی والی پی آئی اے فلائٹس کی منسوخی سمیت ترقیاتی کاموں اور اے ڈی پی بجٹ میں کمی اور پاراچنار کے دیگر حقوق جن میں سے تازہ تریں شہید عباس علی کے حق کو چھیننے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کیا پاراچنار پاکستان کا حصہ نہیں؟ کیا قبائل و شہید عباس علی پاکستانی نہیں؟ پاراچنار کے عوامی و سماجی حلقوں کے نمائندوں کے مطابق حکمران اللہ کی بےآواز لاٹھی سے ڈریں اور ریاستی ظلم جبر بند کردیں۔ وگرنہ، ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ شہید عباس علی کو نطر انداز کرنے کی دوسری وجہ شاید یہ ہو کہ پشاور میں بہادری کی داستان رقم کرنے والے شہید عباس علی کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے کے پی کے کے وزیراعلٰی نے ایک اخباری بیان کے مطابق کہا تھا کہ میں شہید عباس علی کو ستارہ جرآت و تمغہ جرآت دینے کے لئے وزیراعظم کو سفارش کروں گا۔ اب اس کی اصل حقیقت کیا ہے کہ کیا کے پی کے کے وزیراعلٰی نے اپنا یہ وعدہ پوارا کیا یا نہیں۔ فرض کریں اگر پورا بھی کیا، تو صوبائی حکومت و مرکزی حکومت اور وزیراعلٰی کے پی کے و وزیراعظم کے دو متحارب پارٹیوں کے درمیان سیاسی مخالفت و کشمکش کی وجہ سے کہیں شہید عباس علی کو نظر انداز نہ کیا گیا ہو، کیونکہ بدقسمتی سے پاکستان میں اہم قومی ایشو اور ہیروز کی قدردانی بھی باہمی سیاسی چپقلش کی نظر ہو جاتی ہے۔

شہید عباس علی کے قریبی دوستوں و رشتہ داروں کے مطابق آرمی پبلک سکول پشاور کے واقعے کے بعد شہید عباس علی مضطرب و بے چین ہو کر کہتے تھے، کہ کاش میں آرمی پبلک سکول میں موجود ہوتا اور معصوم بچوں پر حملے کرنے والے خارجی درندوں طالبان کو سبق سکھاتا کیونکہ میں نے مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کے خلاف لڑنے کا سبق سید الشہدا امام حسین (ع) سے حاصل کیا ہے۔ جس طرح امام حسین (ع) نے یزید اور یزیدیت کو تاقیامت نیست و نابود کر دیا۔ اسی طرح میں عباس علی، (یاد رہے عباس شیر خدا کے شیر فرزند اور سید الشہدا امام حسین (ع) کے بہادر بھائی و علمدار کربلا کا نام ہے، جن کے نام کے طفیل شجاعت پہچانی جاتی ہے، شہید عباس علی کے والدین نے بھی عباس علی نام رکھ کر تربیت اولاد کا حق ادا کیا تھا) بھی اس دور کے یزیدیوں خوارج نما طالبان دہشت گردوں کو سبق سکھاتا۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ مظلوموں کی آہ براہ راست عرش تک پہنچ جاتی ہے۔ اس لئے شاید اللہ نے شہید عباس علی کی اس خواہش و دعا کو پورا کرکے عباس علی کے ہاتھوں امامیہ مسجد حیات آباد پشاور میں چلتی گولیوں اور فائرنگ کے باوجود وقت کے ایک یزید صفت دہشت گرد کو جہنم واصل کرکے خود جام شہادت نوش کرنے کا موقع فراہم کیا۔
بقول شاعر
مثل شبیر (ع) جو پیام عمل دیتے ہیں ایسے ہی لوگ زمانے کو بدل دیتے ہیں
واقعی شہید عباس علی نے بقول مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ رسم شبیری (ع) ادا کرکے لازوال قربانی و بہادری کی داستان رقم کی۔ اب یوم پاکستان کے موقع پر اپنے آپ کو قائد اعظم و علامہ اقبال کے ویژن والے حکمران کہنے والے اسلام آباد و راولپنڈی کے عالیشان محلات اور دوران سفر درجنوں محافظوں و سکواڈ کے ساتھ بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومنے والے سول و ملٹری حکام اگر شہید عباس علی کو اپنے حق ستارہ جرآت یا تمغہ جرآت دینے کا اعلان کریں یا نہ کریں، سول سوسائٹی و میڈیا اس جائز حق کے لئے آواز اٹھائے یا نہ اٹھائے۔ (شہید عباس علی کی شجاعت کی ایک جھلک ویڈیو سے حاصل شدہ تصویر یہاں منسلک کی جا رہی ہے سوشل میڈیا پر دیگر تصاویر و ویڈیوز بھی زیر گردش ہیں)، لیکن ایک بات ثابت شدہ ہے کہ شہید عباس علی اپنی لازول قربانی کی وجہ سے لاکھوں بلکہ دنیا بھر میں موجود کروڑوں باضمیر انسانوں جہاں جہاں تک یہ داستان بہادری پہنچے گی، کے دلوں میں زندہ ہے۔ بقول شاعر، شاید یہ مصرعہ شہید عباس علی جیسے بہادر جوانوں کے لئے ہی سجتا ہے۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں

متعلقہ مضامین

Back to top button