پاکستان

پاراچنار کے پرامن شہری ساڑھے تین سال سے محاصرے میں

shiite_kurram-agency کرم ایجنسی کے لاکھوں پرامن شہری تقریبا” ساڑھے تین سال سے یرغمالیوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں ۔ پاکستان کے اس دور افتادہ اور قبائلی علاقے کے شہریوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ملکی اور غیر ملکی طالبان کا ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا ہے ۔ ایک مقامی شہری کے بقول پچھلے 39 مہینوں سے پاراچنار کے ہزاروں شہریوں پر راستے بند ہیں اور حتی پشاور آنے کے لئے انہیں افغانستان کا طویل راستہ طے کرنا پڑتا ہے اس دوران اگر کوئی مسافر، طالبان کے ہاتھ لگ جائے تو اسے نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا جاتا ہے، چنانچہ پچھلے دنوں اسیطرح کے ایک المناک واقعے میں ایک مسافر کوچ پر حملہ کرکے تین مسافروں کوشہید اور چارکو زخمی کردیا گيا ۔ شہید ہونے والے افراد میں MSC کا ایک جواں سال طالبعلم بھی شامل تھا ۔علاقے کے ایک مقامی صحافی عظمت علی نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اس راستے پر کانوائے کی شکل میں پشاور جانا نہایت خطرناک ہوگیا ہے اور اب تک درجنوں بے گناہ مسافر طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں ۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جب سے یہاں امریکہ نے اپنے مفادات کی خاطر علی الاعلان پاؤں جمائے ہیں اس وقت سے دہشت گردی اور دہشت گرد عناصر کو اچھی طرح پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے ۔دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ کی قیادت چونکہ خود امریکہ کے ہاتھ میں ہے لہذا پاکستانی سیکورٹی فورسز بھی اسی کے تابع فرمان ہوکر رہ گئی ہیں ، دنیا  جانتی ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے تعلق سے دوغلاپن اختیار کررکھا ہے اور اس کے دوہرے معیارات ہی کی بنا پر آج عراق افغانستان اور پاکستان کے عوام جو مصائب برداشت کررہے ہیں اس سے نجات کا راستہ مشکل نظر آرہا ہے ۔ اس لئے کہ امریکہ ایک طرف دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس کاروائیوں کا مدعی ہے اور دوسری طرف ان سے مذاکرات اور بات چیت کا خواہاں ہے اور انہیں اقدار میں شراکت دلانا چاہتا ہے ۔عراق میں صدام کا تختہ الٹ کر اب اسی کی جماعت کے سرگرم افراد یا یوں کہا جائے کہ صدام کے باقیات کو عراقی عوام پر پھر سے مسلط کرنے کے درپے ہے جبکہ پاکستان اور افغانستان میں طالبان اور ان کے حامیوں سے مذاکرات کی باتیں سننے میں آتی ہیں۔بہرحال صوبہ سرحد خصوصا” ڈیرہ اسماعیل خان میں طالبان اور ان کے مقامی حامی جس قدر فعال اور سرگرم ہیں اس سے شاید کوئی انکار نہ کرے لیکن ان پر جب ہاتھ ڈالنے کی بات آتی ہے تو کچھ نادیدہ قوتیں آڑے آجاتی ہیں یہی حال کراچی کا ہے کہ جہاں طالبان عناصر اپنے پاؤں جمارہے ہیں ۔ان تمام باتوں کو اگر سامنے رکھا جائے تو خود بخود انگلیاں حکومت اور حکومتی ایجنسیوں پر اٹھتی نظر آتی ہیں ۔پاراچنار میں پچھلے ساڑھے تین سال سے محاصرے میں رہنے والے افراد کھل کر یہ کہتے ہیں کہ ہم سے کہا جاتا ہے کہ اگر ہم افغانستان آمد و رفت کے لئے طالبان کو راستہ فراہم کردیں تو محاصرہ ختم کردیا جائےگا ۔مقامی لوگوں کاکہنا ہے کہ حکومت ایک طرف طالبان کے خلاف جنگ کررہی ہے اور دوسری طرف ہم سے طالبان کو راستہ دینے کی بات کی جاتی ہے جو ایک غیر معقول مطالبہ ہے ۔ البتہ حکومت مسلسل یہ وعدے کررہی ہے کرم ایجنسی میں بہت جلد طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا جائے گا اور پاراچنار پشاور روڈ بھی کھولدیا جائیگا لیکن اس کے آثار فی الوقت نظر نہیں آتے چنانچہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ کرم ایجنسی خصوصا” پاراچنار کے پرامن شہری بدستور طالبان کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button