مقالہ جات

ملت کو انقلابی، امریکہ دشمن اور ولایت فقہیہ کا پیروکار بنانا ڈاکٹر شہید کی خواہش تھی، بیوہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی

shiitenews shaheed muhammedاپنے خصوصی انٹرویو میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی بیوہ کا کہنا تھا کہ شوہر کو ہمیشہ صابر و شاکر پایا اور ان کے کاموں کو سراہا۔ شھادت اللہ کا عطا کردہ عہدہ ہے، شہید کی بیوہ کہلوانے پر فخر محسوس کرتی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ضرور، لیکن آئی ایس او کو کبھی سوتن محسوس نہیں کیا۔ شہادت ان کی خواہش تھی۔ کسی

بھی خبر کے لئے ہم آمادہ رہتے۔ ڈاکٹر نقوی جیسے شخص کے شایان شان موت شہادت ہی ہے۔ قاتلوں کو سزا نہ ملنے کی ذمہ دار حکومت اور عدلیہ ہے۔ ان کی شہادت سے میرے بچے ہی نہیں تنظیمی نوجوان بھی یتیم ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کے افکار اور اہداف زندہ ہیں۔ وہ ملت کو انقلابی، امریکہ دشمن اور ولایت فقیہہ کا پیروکار بنانا چاہتے تھے۔ وہ کم وقت میں ہر کام ذمہ داری اور بھرپور توجہ سے انجام دیتے۔ رہبریت سے تمسک اور دشمن شناسی ڈاکٹر صاحب کا مشن تھا، قائدین اور نوجوان اسی سمت آگے بڑھیں۔
سیدہ کنیز بتول نقوی کی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے شادی 1971ء میں ہوئی۔ وہ اپنی 24 سالہ رفاقت کے دوران شوہر کی وفادار ہی نہیں، ان کے اسلامی اور فلاحی کاموں میں مدد کرنے والی رفیقہ حیات بھی ثابت ہوئیں۔ شہید ڈاکٹر کی شہادت کے لئے ذہنی طور پر آمادہ سیدہ کنیز بتول اور ان کے بچے آج بھی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے مشن پر کاربند اور متحرک ہیں۔ شہید کی 17 ویں برسی کے موقع پر اسلام ٹائمز نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی بیوہ سے خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
نماءندہ : موجودہ صورتحال میں کیا ملت اسلامیہ اسی راستے پر ہے، جس طر ح ڈاکٹر صاحب چاہتے تھے۔؟
بیوہ شہید ڈاکٹر نقوی: مجموعی طور پر الحمداللہ کام جاری ہیں۔ ملت آگے بڑھ رہی ہے، قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ لیکن اب بھی مزید کام کی ضرورت ہے۔ علم، شعور، وحدت، رہبریت سے تمسک اور دشمن شناسی ڈاکٹر صاحب کا مشن تھا۔ قوم کے قائدین اور ملت کے جوانوں کو اسی سمت میں آگے بڑھنا چاہئے۔
نماءندہ : ڈاکٹر محمد علی شہید کے ساتھ رفاقت کے دوران انہیں کتنا صابر اور شاکر پایا۔؟
بیوہ شہید ڈاکٹر نقوی: راضی برضا، ہمیشہ صابر و شاکر پایا، انہیں دنیوی کوئی حاجت تو تھی ہی نہیں، سارا ھم و غم دین کی سربلندی اور ملت کا ارتقاء تھا اور ہم ہمیشہ ان کو ان کے کام میں سراہتے اور وہ بھی ہمیشہ یہی کہتے کہ تم ان مشکلات کو برداشت کر کے میر ے ساتھ ان الہٰی کاموں میں شریک ہو۔
نماءندہ : شہید کی بیوہ کہلوانا کیسا لگتا ہے۔؟
بیوہ شہید ڈاکٹر نقوی: فخر محسوس کرتی ہوں، چونکہ شھادت اللہ کا عطا کردہ عہدہ ہے۔

نماءندہ: مشہور ہے کہ ڈاکٹر شہید نے شادی ہوتے ہی آپ کو بتا دیا تھا کہ ان کی آپ سے دوسری شادی ہے۔ پہلی شادی آئی ایس او سے ہے، تو کیا اس دوران کبھی آئی ایس او سو تن لگی۔؟
بیوہ شہید ڈاکٹر نقوی: نہی کبھی نہیں۔

نماءندہ : ڈاکٹر صاحب! بچوں کے بارے میں کس چیز پر زیادہ زور دیتے تھے۔؟
بیوہ شہید ڈاکٹر نقوی: تعلیمات محمد و آل محمد کے مطابق تربیت اور عصری تعلیم کو بہت اہمیت دیتے تھے۔

نماءندہ: کبھی ڈاکٹر صاحب نے اپنی شہادت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا؟ شہادت سے کتنی دیر پہلے، اور کیا کبھی شہادت سے خائف بھی ہوتے تھے۔؟
بیوہ شہید ڈاکٹر نقوی: شہید نے باقاعدہ تو کبھی ذکر نہیں کیا۔ البتہ باتوں باتوں میں ہنسی مذاق میں اپنی شہادت کا اظہار کر دیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ہم ہمیشہ آمادہ رہتے تھے۔ شہادت خود ان کی خواہش تھی۔ البتہ انہیں کبھی خائف نہیں دیکھا۔ ان کا وصیت نامہ دیکھئے، جس میں پوسٹ مارٹم نہ کرنے کا ذکر ہے۔ جس کا مطلب ہے ان کو اپنی شھادت کا یقین کامل تھا۔

نماءندہ : کبھی سوچا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی تنظیمی کام نہ کرتے تو آپ بیوہ اور بچے یتیم نہ ہوتے۔؟
بیوہ شہید ڈاکٹر نقوی: صرف اپنے لیے سوچوں تو لگتا ہے، لیکن موت برحق ہے اور ان جیسے شخص کے شایان شان موت شہادت ہی ہے۔

نماءندہ : ڈاکٹر شہید کے قاتلوں کو سزا کیوں نہیں دی جا سکی۔؟ ذمہ دار کون ہے۔؟
بیوہ شہید ڈاکٹر نقوی: اس کی سب سے پہلی ذمہ داری نااہل حکومتوں اور عدلیہ کی ہے۔ اگر وہ انصاف سے کام لیتے تو اس ملک میں کسی پر ظلم نہ ہوتا اور ہماری ملت کو بھی اس سلسلے میں ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے۔ اب یہ معاملہ میں نے خدا پر چھوڑ دیا ہے۔

نماءندہ : نہیں لگتا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی کے بعد ان کے بچوں کی طرح تنظیمی افراد بھی یتیم ہو گئے۔؟
بیوہ شہید ڈاکٹر نقوی: بالکل ایسا ہی ہے، لیکن ان کا راستہ موجود ہے، ان کے افکار اور اہداف زندہ ہیں۔ کسی کے جانے سے مقصد ختم نہیں ہو جاتا۔ اب ان کے ساتھیوں اور نوجوانوں کو چاہیے کہ ان شہداء کی راہ کو آگے بڑھائیں۔

نماءندہ : شہید ڈاکٹر محمد علی کی شہادت کے بعد کون سے منصوبے ہیں جو پایہ تکمیل کو پہنچے۔؟
بیوہ شہید ڈاکٹر نقوی: سب سے بڑھ کہ یہ ہے کہ وہ شعور جو ڈاکٹر صاحب دینا چاہتے تھے۔ اپنی ملت کو انقلابی بنانا چاہتے تھے۔ امریکہ دشمن اور ولایت فقیہہ کا پیروکار بنانا چاہتے تھے۔ ملت میں یہ شعور اب نظر آتا ہے۔ ملت کے ارتقاء کے لئے مختلف ادارے ا ن کی خواہش تھی۔ الحمد اللہ! بہت سے ادارے بن چکے ہیں، جو خدمات انجام دے رہے ہیں۔

نماءندہ : ڈاکٹر صاحب کی قومی اور ذاتی حوالے سے کون سی خواہش ہے، جو پوری نہ ہو سکی۔؟
بیوہ شہید ڈاکٹر نقوی: ڈاکٹر صاحب کی بیٹی نے ان سے ذاتی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے فرمایا: میر ی ذاتی خواہش لقاءاللہ یعنی اللہ سے ملاقات ہے، کوئی اور ذاتی خواہش نہ تھی۔ البتہ قومی حوالے سے وہ ملت کو سربلند دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک مضبوط قوم دیکھنا چاہتے تھے۔ ابھی صورتحال بہتر ہے، لیکن ابھی شہید کی خواہش کی تکمیل میں کافی فاصلہ ہے۔

انماءندہ : ڈاکٹر صاحب! تنظیم، ہسپتال اور گھر کو مصروف زندگی میں وقت کی تقسیم کار کیسے کرتے۔ کبھی محسوس ہوا کہ وہ بچوں کو مناسب وقت نہ دے کر ناانصافی کر رہے ہیں۔؟
بیوہ شہید ڈاکٹر نقوی: وہ کم وقت میں بھی بھرپور توجہ دیتے تھے۔ کبھی شکوہ نہیں ہوا۔ ان کا ہر کام بہت منظم ہوا کرتا تھا۔ ہر ذمہ داری کو بھرپور توجہ کے ساتھ انجام دیتے تھے۔

نماءندہ : کیا آپ اور آپ کے بچے اب بھی تنظیمی فعالیت میں ہیں یا نہیں۔؟
بیوہ شہید ڈاکٹر نقوی: بساط بھر، الحمداللہ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button