ذاکر نائیک کی پاکستان آمد سے دنیا کو مذہبی انتہا پسند کی میزبانی کا تاثر ملا،سابق سفیر حسین حقانی
مجھے اِس حد تک تو اتفاق ہے کہ ریاستی سطح پر اِس دعوت کی ضرورت نہیں تھی، تاہم نجی طور پر ہمیں ذاکر نائیک سمیت ہر قسم کی شخصیت کو مدعو کرنا چاہیے، جس کی بات میں جتنا دم ہوگا وہ سب کو نظر آ جائے گا۔

شیعیت نیوز: معروف کالم نگار یاسر پیر زادہ نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ کیا ہمیں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پاکستان آنے کی دعوت دینی چاہیے تھی؟
اِس سوال کا بڑا دلچسپ جواب سابق سفیر حسین حقانی نے اپنی ٹویٹ میں دیا کہ ’پاکستان کو اس دعوت پر دوبارہ غور کرنا چاہیے، اِس سے ہمارے ملک کے اِس تاثر کو تقویت ملے گی کہ ہم مذہبی انتہا پسندوں کی میزبانی کرتے ہیں۔
یوں بھی پاکستان سخت گیر مبلغین پیدا کرنے میں خود کفیل ہے، کسی کو درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہے!‘
مجھے اِس حد تک تو اتفاق ہے کہ ریاستی سطح پر اِس دعوت کی ضرورت نہیں تھی، تاہم نجی طور پر ہمیں ذاکر نائیک سمیت ہر قسم کی شخصیت کو مدعو کرنا چاہیے، جس کی بات میں جتنا دم ہوگا وہ سب کو نظر آ جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کوہاٹ: جامعہ حقانیہ کے تکفیری دہشتگردوں کی فائر نگ سے شیعہ استاد قابل حسین شہید
ذاکر نائیک صاحب نے پاکستان میں جس طرح اپنا مقدمہ پیش کیا وہ سب کے سامنے ہے۔
میرا خیال ہے کہ اِس سے پاکستان میں اُن کے چاہنے والوں کی تعداد میں کمی ہی ہوئی ہو گی۔
اسی طرح پاکستان کی جامعات، این جی اوز اور نجی اداروں کو بھی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ ہمہ جہت قسم کے دانشوروں کو اپنی تقریبات میں بلا سکیں۔