شیعت نیوز اسپیشل

شہید علی ناصر صفوی، غیرت و حمیت کا پیکر

ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی کا خصوصی کالم

آج ہم جس شہید کی 23 ویں برسی منا رہے ہیں، وہ غیرت و حمیت کا مجسمہ تھے۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی قدس سرہ کی شہادت پر اپنے پیغام میں اس شہید مظلوم کو فرزند راستین سید الشہداء ابی عبداللہ امام حسین علیہ السلام سے تعبیر کیا ہے۔ شہید حسینی حقیقت میں عاشق کربلا اور غیرت و حمیت کے حسینی کربلائی راستے کے پیروکار تھے۔ بقول ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی شہید قائد نے سرزمین پاکستان پر انقلاب اسلامی کو ایک شفاف آئینے کی طرح منعکس کیا اور بڑی شفافیت سے خط امام راحل کو متعارف کروایا۔ اپنے پرائے سب معترف ہیں کہ جن باتقویٰ و با ایمان پروں کے ذریعے اس عظیم قائد نے پرواز کی اور
 ملت پاکستان میں دینی غیرت و حمیت کی روح کو اجاگر کیا بقول شہید قائد، ان کے وہ پر امامیہ نوجوان تھے، جن سے وہ پرواز کرتے تھے۔ جن میں سرفہرست نام سفیر انقلاب شہید محمد علی نقوی کا ہے اور سفیر نور و سفیر انقلاب کے ہراول دستے کے مجاہدین میں ایک درخشندہ ستارہ شہید علی ناصر صفوی ہیں۔

آمر ضیاء الحق کے برسر اقتدار آنے اور دنیا میں رونماء ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہمارا وطن عزیز بحرانوں کی دلدل میں دھکیلا گیا۔ ایک طرف افغانستان پر روس کی چڑھائی اور مدمقابل امریکہ کی سربراہی میں جہاد افغانستان کے نام پر پاکستان میں بیرونی عالمی طاقتوں اور خطے کے ممالک کی وطن عزیز میں کھلے عام مداخلت شروع ہو جاتی ہے، اور ایک چار جہتی اتحاد تشکیل پاتا ہے۔ جس میں امریکہ، سعودیہ، ضیاء الحق کی اسٹیبلشمنٹ اور دیوبندی و وہابی لیڈرشپ شامل ہوتی ہے۔ اس اتحاد کے نتیجے میں پاک افغان سرحدی علاقوں میں منظم جہادی گروہ تشکیل پاتے ہیں اور دنیا بھر سے جہاد افغانستان میں شریک ہونے کے لئے انتہاء پسندوں کے لئے بھی راستہ کھول دیا جاتا ہے۔ امریکہ اس پراجیکٹ کی انجینئرنگ و کمانڈ اور اسلحہ و امداد کے لیے اپنے دروازے کھول دیتا ہے۔ سعودی عرب بھی وہابیت کی تبلیغ و تشہیر اور وہابی طرز فکر کے جہاد کی ترویج و تقویت کے لئے خزانوں کے منہ کھول دیتا ہے۔

اس کی مدیریت ضیاء الحق کا نظام اور افرادی قوت فراہم کرنے کے لئے دیوبندی وہابی لیڈرشپ سرگرم عمل ہوتی ہے۔ دھڑا دھڑ انتہاء پسندی کی ترویج کیلئے مدارس، مراکز، مساجد اور اداروں کا جال ملک کے طول و عرض میں بچھا دیا جاتا ہے۔ جب وہابیت کی فکر کو تقویت ملتی ہے تو ملک بھر میں تکفیریت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ملک میں مذہبی انتہاء پسندی کی سوچ سے پورے ملک میں اجتماعی تعلقات و روابط کا فطری نظام متاثر ہوتا ہے۔ سوسائٹی کے افراد کے مابین غیر مرئی بلند و بالا دیواریں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ جہاد افغانستان کی ناقص پالیسیوں سے ہمارا معاشرہ مذہبی و مسلکی اعتبار سے کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ نفرت انگیز سوچ کو ہوا دی جاتی ہے۔ شہر شہر میں کافر کافر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ تکفیری نعروں کی وال چاکنگ اور غلیظ لٹریچر وافر مقدار میں چھاپا جاتا ہے۔ منبروں سے تقریریں ہوتی ہیں۔

کافر کافر کے جلوس نکلتے ہیں، بڑے بڑے اجتماعات اور مظاہرے ہوتے ہیں۔ شیعہ مذہب کے پیروکاروں کے خلاف کفر اور بریلوی مسلک کے پیروکاروں کو مشرک و بدعتی ہونے کے فتوے دیئے جاتے ہیں اور تکفیر کے فتوے دینے والے مفتیان ارباب اقتدار کے چہیتے اور بیرونی طاقتوں کے منظور نظر ہونے کی وجہ سے بلا خوف و خطر شرانگیزی پھیلاتے رہتے ہیں۔ ملک کے امن و امان کی حفاظت کے ضامن ریاست کے بااختیار اور مقتدر لوگ ڈالروں، ریالوں اور عیاشیوں میں مست ہوتے ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے تکفیری اثاثے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے پر مامور ہوتے ہیں اور ارباب اقتدار انہیں کھلی چھٹی دیتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ریاستی سرپرستی اور غیر ملکی امداد سے سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی جیسے متعدد جہادی گروہ مذہب شیعہ کے پیروکاروں کے خلاف بعض علاقوں میں لشکر کشیاں اور شہر شہر میں ٹارگٹ کلنگ شروع کر دیتے ہیں۔ عزادرای کے جلوسوں اور نماز جمعہ و جماعت کے اجتماعات میں بم دھماکے کرتے ہیں۔

پاکستان کی تشکیل کی بنیادی اکائی شیعہ مسلمان، جو کہ ملک کے تقریباً ایک تہائی یا کم از کم ایک چوتھائی حصے پر مشتمل ہیں اور جن کی تعداد کروڑوں میں ہے، تکفیری تنظیموں کے مسلح جتھے کھلم کھلا شیعہ مذہب کے خلاف اعلان جنگ اور جنگی کارروائیاں کرتے ہیں۔ لیکن نہ قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے پر مامور حکومتی مشینری اور ادارے انہیں گرفتار کرتے ہیں اور اگر کوئی گرفتار ہو بھی جائے تو عدالتیں ان کو سزا دینے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ ججز ان کے خوف اور مقتدر طبقات کے پریشر کی وجہ سے انہیں رہا کر دیتے ہیں۔ ایسی صورتحال کا فطری نتیجہ یہی نکلتا ہے اور انسانی و قومی اور دینی و مذہبی غیرتمندی و حمیت کا تقاضا بھی یہی بنتا ہے کہ پھر عوام خود اپنے وجود کا، زندہ رہنے کے حق کا اور اپنے دین و مذہب اور دینی شعائر و مراکز و مساجد و عبادت گاہوں اور مذہبی شخصیات کی خود حفاظت کریں۔

تکفیری فتنے کی آگ کے شعلے پہلے جھنگ شہر سے اٹھے، پھر پورے ملک میں پھیلا دیئے گئے۔ ان شعلوں نے پہلے اہل جھنگ کو اپنی لپیٹ میں لیا، پھر پورے ملک کے بے گناہ عوام فقط کسی مذہب و مسلک کے پیروکار ہونے کے جرم میں جلائے گئے۔ اس مسلط کردہ صورتحال کے نتیجے میں ملت جعفریہ کے باغیرت و حمیت اور بہادر بیٹوں نے اپنی قربانیاں دے کر اپنے مذہب و ملت اور انفرادی و اجتماعی وجود کا مردانہ وار دفاع کیا یا ایسیے کہا جائے تو بہتر ہے کہ وطن کے چند سرفروش بیٹوں نے امن دشمن عناصر کو جواب دینے کی ٹھان لی اور اس راہ میں شھادت کو گلے لگایا۔ ان شھداء میں ایک بلند مرتبہ شہید ضلع جھنگ کی تحصیل چنیوٹ کے باسی علی ناصر صفوی بھی تھے۔ شہید علی ناصر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت تھے۔ ان کا تعلق ایک دیندار گھرانے سے تھا۔ ان کی تربیت بھی ایک مذہبی اور پاکیزہ ماحول میں ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: شہید علی ناصر صفوی کون تھے؟
جب 5 اگست 1988ء کو ملت جعفریہ پاکستان کے قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کو پشاور میں نماز فجر کے وقت شہید کر دیا گیا۔ اتنی بڑی شخصیت کے قتل کے بعد بھی جب قانون بے بس نظر آیا، نہ قاتل پکڑے گئے اور ہماری عدالتیں بھی انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہیں تو ملت جعفریہ کے بعض جوانوں نے خود اس شہید مظلوم کے ناحق خون کا انتقام لینے اور ملک کے امن دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کا فیصلہ کیا اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا اور معروف یہی ہے کہ ان میں سے ایک جوانمرد شہید علی ناصر تھے۔ شہید علی ناصر انتہائی درجے کے ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک متقی، پرہیزگار اور شب زندہ دار مجاہد تھے۔ فہم و فراست میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ زمانے کے حالات، خطے اور پاکستان میں بدلتے حالات پر گہری نگاہ رکھنے تھے۔

وہ انقلابی و مقاومتی طرز تفکر کے پیروکار تھے۔ وہ دشمن شناس تھے اور اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ امریکہ و اسرائیل شر مطلق ہیں، وہ امت مسلمہ کے خیر خواہ نہیں اور وہ ہمیشہ مسلمانوں کو باہمی طور پر لڑانے اور کمزور کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے دشمن یہ تنخواہ دار وہابی تکفیری نہیں بلکہ ہمارے اصل دشمن امریکہ و اسرائیل اور ان کے اتحادی ہیں۔ یہ بیچارے فقط ان اصلی دشمنوں کے آلہ کار ہیں۔ وہ پاکستان میں امریکی و مغربی مفادات کے لئے خطرہ بن چکے تھے، اس لئے امریکیوں کی ایماء پر انہیں 25 نومبر 2000ء کو جوہرآباد میں اپنی شریک حیات کے ساتھ گولیوں کی بوچھاڑ سے شہید کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں شہداء کربلاء کے ساتھ محشور فرمائے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button