اہم ترین خبریںایران

شہادت ایثار و قربانی کا مظہر ہے، شہیدوں کی یاد زندہ اور باقی رہنی چاہیئے، آیت اللہ خامنہ ای

شیعیت نیوز:رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ شہیدوں کی یاد ہمیشہ زندہ اور باقی رہنی چاہیئے، شہیدوں کا پیغام سنا جانا چاہیئے، ہمیں شہیدوں کے پیغام کی ضرورت ہے، ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ یہ تو واضح سی بات ہے، شہیدوں کے پیغام کو تو سبھی جانتے ہیں، سبھی کو پتہ ہے، نہیں سب نہیں جانتے، جو نئی نئی نسلیں آ رہی ہیں، انہیں جو کچھ گزرا ہے، محرکات، افکار اور اسی طرح کی دوسری باتوں سے مطلع ہونا چاہیئے، جو کام پیغام پر مشتمل ہوتا ہے، اس میں یہ بڑی خصوصیت ہوتی ہے۔ ایران کے صوبہ قم کے شہیدوں پر سیمینار کے منتظمین سے ملاقات میں انہوں نے آرٹ کی زبان کو شہیدوں کی یاد اور ان کے پیغام کو منتقل کرنے کی بہترین زبان بتایا۔

انہوں نے نوجوانی میں ہی کمانڈر بننے والے شہید مہدی زین الدین کو صوبہ قم کے سب سے نمایاں شہیدوں میں سے ایک بتایا اور کہا کہ میدان جنگ میں ان کی بے مثال شجاعت، تدبیر اور تعمیر اور پھر اخلاقیات کے میدان میں، دینداری کے میدان میں، مذہبی اور اسلامی احکامات کے میدان میں بھی ان کی خصوصیات کو بیان کیا جانا چاہیئے اور آرٹ کی زبان کے علاوہ کسی بھی دوسری زبان میں ان چیزوں کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے تمام شہیدوں کے پیغام کو بیان کرنے میں فن و ہنر کے استعمال کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے صوبہ قم میں ترانہ گانے والی بچوں کی ایک ٹیم پر بعثی حکومت کے ہوائی حملے اور ان کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس واقعے کے تمام پہلوؤں کے جائزے اور انہیں بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیا جو اہم پیغامات کا حامل واقعہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں : سہیون شریف بس حادثہ ڈرائیور سمیت سندھ حکومت کی غفلت اور نااہلی سانحے کا سبب بنی ہے، علامہ باقرعباس زیدی

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنی تقریر کے ایک دوسرے حصے میں شہادت کو خدا سے سودا اور قومی مصلحتوں کی تکمیل بتایا۔ انہوں نے کہا کہ شہادت، جہاں خداوند عالم سے سودا ہے وہیں اس سے قومی مصلحتوں کی تکمیل بھی ہوتی ہے، اللہ کی راہ میں شہادت، قومی مصلحتوں اور قوم کے مفادات کی تکمیل کرتی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے قومی اقدار، شہید اور شہادت کو، قومی تشخص کو بلندی عطا کرنے والے اجزاء سے تعبیر کیا اور ایرانی قوم کی شہادت پسندی کو، دنیا میں اس کی عظمت کا سبب قرار دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ایرانی قوم نے اپنی اسی شہادت پسندی کی وجہ سے ان لوگوں کی نظروں میں عظمت حاصل کی ہے جن کے کانوں تک یہ بات پہنچی ہے، ایثار و فداکاری کی باتیں جتنی زیادہ باہر پہنچی ہیں، اتنی ہی اس قوم کی عظمت میں اضافہ ہوا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ملک کے شمالی یا مشرقی علاقے کا کوئی شہید، دیگر علاقوں کے شہیدوں کے ساتھ ایک ہی صف میں تھا، وہ سبھی ایک ہی ہدف کے لئے شہید ہوئے، اسلام کی عزت کے لئے، اسلامی جمہوریہ کی عظمت کے لئے، ایران کی تقویت کے لئے، وہ اس طرح مختلف اقوام، شہروں اور علاقوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے تھے، یہ شہادت کی خصوصیت ہے۔ انہوں نے شاہچراغ کے سانحے جیسے واقعات کی تاریخ میں جاوداں بن جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب سے لے کر آج تک کا ہر واقعہ، تاریخ کا ایک روشن باب ہے، ایک ستارہ ہے، یہی سانحہ جو کچھ دن پہلے شاہچراغ میں ہوا، ایک لافانی ستارہ ہے، یہ تاریخ میں باقی رہے گا اور سربلندی اور فخر کا سبب بنے گا، ہاں کچھ لوگوں کو غم اٹھانا پڑا، ان میں سے بعض واقعات غم انگيز ہیں اور انسان کے دل کو غم و اندوہ سے بھر دیتے ہیں لیکن یہ واقعات ستارے ہیں، یہ تاریخ میں باقی رہیں گے۔

آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات میں اسی طرح ایرانی عوام کے قیام میں، شہر قم کے مقام و منزلت کی طرف اشارہ کیا اور اسلامی انقلاب کے شہیدوں کو قم کے پرورش یافتہ شہید بتایا۔ انہوں نے کہا کہ قم نے سب سے پہلے قدم بڑھائے، قم نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی آواز پر لبیک کہا، کون سمجھتا تھا کہ امام خمینی سنہ 1962ء اور 1963ء میں کیا کہہ رہے ہیں؟ قم کے لوگ تھے جو میدان میں آگئے، یہاں تک کہ جب انہیں محسوس ہوتا تھا کہ تحریک کسی حد تک کمزور پڑ گئی ہے، تب بھی، قم کے لوگ امام خمینی کے درس میں آگئے، پھر اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک یہ لگاتار اور مسلسل امتحانات ہماری قوم کے لئے اور ہمارے عوام کے لئے موجود رہے ہیں اور اہل قم ان امتحانوں میں ہمیشہ سرخرو ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قم نے خود بھی قیام کیا اور ایران کو بھی قیام پر ابھارا کہ جو حضرت معصومہ (س) اور حوزہ علمیہ کی برکتوں کا نتیجہ تھا اور وہاں کے نیک انسانوں کی بدولت تھا جنہوں نے انقلاب کی جدوجہد میں بے شمار لوگوں کی قربانی پیش کی، البتہ مطہری، بہشتی اور باہنر جیسے شہدا بھی قم کے پرورش یافتہ تھے بلکہ پورے ایران کے شہدا قم کے شہدا شمار ہوتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ ایک شخص دوسروں کے آرام کے لئے اپنی جان دیتا ہے، شہید ہونے والا اپنی جان اس لئے دیتا ہے کہ دوسرے سلامتی سے رہ سکیں، دفاع مقدس میں شہید ہونے والوں نے اپنی جان دی تاکہ شریر اور جابر دشمن ان عزائم کو پورا نہ کر سکے جن کا اس نے تہران کی طرف پیش قدمی اور ایرانی قوم کو ذلیل کرنے کے حوالے سے اظہار کیا تھا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button