مقالہ جات

غزہ اور یمن

یوں تو سر زمین فلسطین پر غاصب اسرائیلی قبضہ کے آغاز یعنی سنہ1948سے ہی فلسطینیوں پر صیہونی مظالم کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا اور تاریخ میں ایسے ایسے اوراق رقم کرتا چلا گیا جس کے بارے میں شاید دور حاضر کی نام نہاد مہذب دنیا نے سنا تھا اور نہ پڑھا تھا، اسی فلسطین میں ایک علاقہ غزہ کے نام سے موسوم ہے کہ جہاں تقریباً اٹھارہ ملین آبادی ہے اور اس آباد ی کے ساتھ صیہونیوں نے ایسے ایسے مظالم کئے ہیں جو شاید پورے فلسطین میں کسی اور خطے میں نہ کئے ہوں گے، یاد رہے کہ صیہونیوں نے لاکھوں فلسطینیوں کا قتل عام کیا، لبنان میں صبرا و شتیلا کیمپوں پر بھاری گولہ بارود سے حملہ کیااور نتیجہ میں ہزاروں فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا، اسی طرح لبنان پر صیہونی جارحیت ، شام کے علاقے پر قبضہ، مصر کی وادی سینا پر صیہونیوں کا قبضہ سمیت دنیا بھر میں جاری دہشت گردانہ کاروائیوں کی براہ راست اور بالواسطہ مدد کرنا صیہونیوں کا وطیرہ رہاہے لیکن غزہ ایک ایسا علاقہ ہے کہ جہاں ان سب سے بڑھ کر صیہونیوں نے انسانیت سوز مظالم کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ جس پر ہر ذی شعور کی جہاں آنکھ اشک بار ہو جاتی ہے وہاں کلیجہ بھی پھٹ جاتا ہے۔
ماضی بعید کی بات نہیں کرتے آئیے گذشتہ برس کی ہی بات کرتے ہیں کہ جب ماہ رمضان المبارک میں غاصب اسرائیل نے غزہ پر ایک جنگ مسلط کی اور اس جنگ کا طریقہ کار یہ تھا کہ اسرائیلی ظالم افواج سمندر اور زمین سمیت فضاء سے مظلوم فلسطینیوں پر گولہ بارود کی بارش کرنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسا غزہ خون اور آگ کی لپیٹ میں آ چکا تھا، دسیوں ہزار افراد اس پچاس روزہ دہشت گردانہ کاروائی میں شدید زخمی ہوئے، تین ہزار سے زائد معصوم بچے، خواتین سمیت عام شہری موت کی نیند سلا دئیے گئے ، ظلم کی انتہا دیکھئے زخمیوں کو اسپتالوں میں منتقل کیا گیا لیکن صیہونی افواج نے ان اسپتالوں پر بھی بمباری کر دی اور پورے کے پورے اسپتال اور طبی امداد کے مراکز زمین بوس ہو گئے، یہی حال اسکولوں اور دیگر عمارتوں کا ہوا کہ جہاں اپنے گھروں کی بربادی اور تباہی کے بعد پناہ لینے والے فلسطینیوں پر گولہ بارود کی بارش کی گئی اور نتیجہ میں وہ تمام عمارتیں کہ جہاں فلسطینی پناہ لئے ہوئے تھے سب کی سب دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈرات میں بدل گئیں، حتیٰ اسرائیلی ظالموں نے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں چلنے والے اسکولوں کی عمارتوں کو بھی نہ بخشا اورایسے اوقات میں ظالمانہ کاروائیاں انجام دیں جب فلسطینی مساجد میں نماز، یا اپنے گھروں میں سحر وافطار میں مصروف عمل تھے ، خلاصہ یہ ہے کہ غاصب اسرائیل نے غزہ کے ان اٹھارہ لاکھ افراد پر زندگی تنگ کر دی اور دہشت گردی کی ایسی مثال قائم کی کہ شاید ہی دنیا میں ایسی مثالیں پہلے یا اس کے بعد ملیں گی۔
دنیا میں آج جہاں کہیں بھی دہشت گردی کے مسائل پیدا کئے گئے ہیں اس کے بارے میں ماہرین سیاسیات اور اسٹراٹیجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل المدت تحقیق اور دہشت گردانہ کاروائیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ان تمام تر دہشت گردانہ کاروائیوں کے تانے بانے بالآخر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل سے جا ملتے ہیں، اس حوالے سے بہت ساری وجوہات بیان کی جاتی ہیں جن میں ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ جو طریقہ کار صیہونیوں نے فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کا رکھا ہے اسی طرح کی تکنیک ہمیں دنیا کے متعددممالک میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں نظر آتی ہے یا اس کی کسی حد تک جھلک پائی گئی ہے، مثال کے طور پر پاکستان کی بات کریں تو یہاں دیکھا گیا ہے کہ صیہونی طریقہ کار کافی حد تک دہشت گردانہ کاروائیوں میں شامل رہاہے یعنی پہلے عام شہریوں پر دہشت گردانہ حملے کئے جاتے ہیں اور جب زخمیوں کو علاج معالجہ اور طبی سہولیات کے لئے اسپتالوں کی طرف لے جایا جاتا ہے تو وہاں پر بھی اس قسم کی دہشت گردانہ کاروائی انجام پذیر ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں بڑا نقصان ہوتا ہے، اسی طرح عام بازاروں ، اور مذہبی عبادت گاہوں کو بھی ٹھیک اسی طرح دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس طرح کے صیہونی فلسطین میں انجام دیتے رہتے ہیں، جس طرح صیہونیوں نے معصوم بچوں اور خواتین پر رحم نہیں کیا اسی طرح ان کے اشارو ں پر چلنے والے دہشت گرد گروہوں نے بھی کبھی ایسا نہیں کیا، اس کی واضح اور تازہ مثال بھی پاکستان میں موجود ہے کہ پشاور میں اسکول کے بچوں اور خواتین کو کس سفاکانہ انداز سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، ایسی مثالیں مقبوضہ کشمیر، برما، لبنان، شام، عراق، اور دنیا کے دیگر خطوں میں بھی دیکھی گئی ہیں۔خلاصہ یہ کہ صیہونزم نے نہ صرف فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا ہے بلکہ دہشت گردی اور صیہونزم کو فلسطین سے باہر ایکسپورٹ بھی کیا ہے جس کے باعث آج پوری دنیا دہشت گردی کے نشانے پر ہے۔
اب ذرا یمن کی صورتحال کی طرف آئیے تو آپ کو یہاں پر بظاہر ایسا دکھایا جا رہاہے کہ شاید یمن میں کوئی باغی گروہ ہیں ، باغی ہمیشہ وہ ہوتے ہیں کہ اس ملک کے باشندے نہ ہوں یا اپنے ملک کو پسند نہ کرتے ہوں یا پھر اپنی الگ ریاست کا مطالبہ کرتے ہوں جبکہ یمن میں جن لوگوں کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں طوفان نامی حملوں کی آڑ میں یک طرفہ جنگ کا آغاز کیا گیا ہے وہ لوگ در اصل یمن کے قدیمی قبائل اور باشندے ہیں اور جو یمن کے اندر رہتے ہیں اور رہنا چاہتے ہیں ان کا مطالبہ بہت سادہ سا ہے جس میں وہ چاہتے ہیں کہ اقتدار عوامی نمائندوں اور ایماندار افراد کے ہاتھ میں ہو جس کے انتخاب میں امریکہ سمیت برطانیہ اور کوئی یورپی ممالک اور خطے کی خلیجی ریاستیں اثر انداز نہ ہوں ، اسی طرح انہوں نے دوسرا اہم مطالبہ امریکی مداخلت کے خلاف رکھا ہے، تیسرا مطالبہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کی آواز بلند کرتے ہیں اور صیہونی غاصب ریاست کو ایک ناجائز اور غیر قانونی ریاست تسلیم کرتے ہیں، بہر حال سعودی عرب نے بظاہر تو یمن پر حملوں کا آغاز کر رکھا ہے اور اب اس بات کو بھی ایک سال کے لگ بھگ کا عرصہ مکمل ہونے والا ہے ، لیکن یہاں بھی جو غور کرنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ یہاں بظاہر تو دنیا کو دکھایا جا رہاہے کہ سعودی عرب خطے میں اپنے کنٹرو ل کے لئے جنگ کر رہاہے جبکہ حقیقت میں اس جنگ میں اسرائیلی ہوائی جہازوں سمیت اسرائیلی اسلحہ اور اسرائیل کی فضائی افواج کے پائلٹ حملوں میں بنفس نفیس شریک ہیں، یہاں بھی گذشتہ برس کی غزہ جنگ کی طرح یمن کے تمام اہم مراکز کو بمباری کے نتیجے میں تباہ و برباد کر دیا گیا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق سعودی اور اسرائیلی مشترکہ حملوں میں اب تک شہید ہونے والے بچوں کی تعداد ہی سرف پانچ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اجتماعی طوریہاں بھی غزہ کے مظلوموں کی طرح دس ہزار سے زائد یمنی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، یمن کے اسپتالوں کو بھی غزہ کے اسپتالوں کی طرح تباہ کر دیا گیا ہے، یمن کے اسکولوں کو بھی غزہ کے اسکولوں کی طرح نابود کر دیا گیا ہے،یمن کے عوام بھی غز ہ کے عوام کی طرح سڑکوں پر ہیں، یمن کے عوام بھی غزہ کے اسرائیلی محاصرے کی طرح عرب خلیجی محاصرے کا شکار ہیں، یمن میں بھی غزہ کی طرح زندگی تنگ کر دی گئی ہے، یمن کے عوام کو بھی غزہ کے عوام کی طرح بین الاقوامی امداد تک رسائی نہیں دی جا رہی، غرض یہ کہ غزہ اور یمن ایک ہی صورتحال اختیار کر چکے ہیں اور جہاں عرب حکمرانوں کے یمن پر حملے کی آڑ میں کئی ایک مذموم مقاصد ہیں وہاں سر فہرست ایک مقصد واضح طور پر نظر آ رہاہے کہ یمن کے اندر اس قدر خونریزی کی جائے کہ یمن کے عوام فلسطینیوں کی حمایت میں اور صیہونزم کے خلاف لگائے جانے والے نعرے کو فراموش کر دیں اور یہ سازش صرف یمن ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک میں بھی بشمول پاکستان، افغانستان، عراق، شام، لبنان اور مصر سمیت اردن اور سوڈان اور افریقی ممالک میں بھی کی جا رہی ہے تا کہ فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی آوازیں دم توڑ جائیں اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناپاک مقاصد کے جن کی تکمیل کے لیے پہلے ہی درج بالا ذکر کئے گئے ممالک میں داعش نامی تکفیری دہشت گرد گروہ موجود ہے ، ان صیہونی مقاصد کو مزید تقویت فراہم ہو اور دنیا کے عوام فلسطینیوں کے حقوق اور مسئلہ فلسطین کو فراموش کر بیٹھیں۔البتہ صیہونزم کی سازشیں تاحال دنیا کے با ضمیت اور شجاع انسانوں کے سامنے دم توڑ رہی ہیں اور یہ سب صرف اور صرف اسلامی مزاحمت کی اسرائیل اور اس کے پیدا کئے گئے دہشت گرد گروہوں کے خلاف جاری مزاحمت کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے۔
تحریر: صابر کربلائی

متعلقہ مضامین

Back to top button