پاکستان

22 سال سے جھوٹے مقدمے کے الزام میں تحریک جعفریہ کے وسیم عباس اور شہباز علی باعزت بری

فرقہ وارانہ کشیدگی کے 22 سالہ پرانے مقدمے سے تحریک جعفریہ کے رہنماوں وسیم عباس خان اور شہباز علی گھلو کو سپریم کورٹ نے بری کر دیا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عمر عطابندیال اور جسٹس اقبال حمود الرحمان پر مشتمل سپریم کورٹ کے فل بنچ نے دونوں ملزمان کو الزامات سے بری قرار دے دیا۔ سپاہ صحابہ کے کارکنوں یوسف صدیقی اور چودھری ناظر کے قتل کے مدعی شیر محمد صدیقی نے جسٹس اعجاز احمد چودھری اور جسٹس ایم اے شاہد صدیقی پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ ملتان کے ڈویژن بنچ کے ملزمان کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل کر رکھی تھی جو مسترد کر دی گئی۔ ملک اعجاز حسین گورچھا ایڈووکیٹ نے دونوں رہنماوں کے مقدمے کی پیروی کی۔ مقدمے میں بری ہونے پر تحریک جعفریہ کے قائد علامہ ساجد علی نقوی اور مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وسیم عباس خان اور شہباز گھلو کو مبارکباد دی ہے۔ اور ان کی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کی قبولیت کے لئے دعا کی ہے۔ واضح رہے کہ 22 جنوری 1993ءکو علی پور سے تحریک جعفریہ کے کارکن دو ویگنوں پر سیت پور میں جلسے میں شرکت کے لئے جا رہے تھے کہ سپاہ صحابہ کے کارکنوں نے خیر پور چوک میں قافلے پر فائرنگ کر دی۔ جس کے جواب میں فائرنگ کے نتیجے میں سپاہ صحابہ کے دو افراد ہلاک اور تحریک جعفریہ کے دو کارکن زخمی اور دو اغوا ہو گئے تھے۔ اس مشہور مقدمہ قتل کی ایف آئی آر میں وسیم عباس خان، شہباز علی اور کاظم علی خان مرحوم سمیت 9 افراد کے خلاف مقدمہ علی پور تھانہ میں درج کیا گیا تھا۔ جس کا فیصلہ 6 جنوری 1996ء کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سنایا جس میں وسیم عباس خان کو سزائے موت، شہباز علی گھلو کو 25 سال، کاظم علی حیدری، خضر شاہ، اختر حیسن کاظمی، منیر گھلو کو بری جبکہ ظفر گھلو کو ایک سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

متعلقہ مضامین

Back to top button