دنیا

مسلمان نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے

اقوام متحدہ نے فلسطینیوں سے آزاد ریاست کا وعدہ پورا نہ کیا

شیعیت نیوز: اب ایک بار پھر 29 نومبر کی تاریخ آگئی ہے، یہ 29 نومبر غزہ پر اسرائیلی ریاست کی بمباری کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑنے کے ماحول میں آیا ہوا ہے۔

کیا اس ماحول میں یوم یکجہتی فلسطین کوئی معنویت کا حامل موقع بن سکے گا؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک غزہ میں ہونے والی بدترین تباہی اور ہزاروں شہادتوں کے سلسلے میں عالمی سطح پر بالعموم اور مسلم دنیا میں بالخصوص فلسطینیوں کے لیے اٹھنے والی آوازوں اور اظہار یکجہتی کا طائرانہ جائزہ لے لیا جائے۔

یہاں اسی مسلم دنیا کی بات کرنا مقصود ہے جس کے پاس توانائی کے وسائل کی صورت میں دنیا کی کل دولت کا 70 فیصد موجود ہے۔

دنیا کی 60 فیصد معدنیات انہیں کے علاقوں میں ہیں۔

دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 25 فیصد مسلمانوں کی ہی آبادی ہے۔ سمندر، پہاڑ، میدان صحرا سب کچھ میسر ہے مگر میسر نہیں تو۔۔۔ حمیت نام تھا جس کا۔ وہ حمیت عرب وعجم کے گلی کوچوں سے دور جا بسی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 7 اکتوبر سے لےکر اب تک مسلم دنیا کے گلی کوچوں اور شاہراہوں پر فلسطینیوں کے حق میں اتنی بڑی تعداد بھی نہیں نکل سکی (ماسوائے چند شہروں کے) جتنی واشنگٹن، نیویارک اور لندن وغیرہ میں نکلی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:طوفان الاقصی اب رکنے والا نہیں ،آیت اللہ خامنہ ای کا بسیج فورس سے خطاب

جس طرح اقوام متحدہ نے 76 برسوں میں فلسطینیوں کے ساتھ کیا گیا ان کی آزاد ریاست کا وعدہ پورا نہیں کیا۔

اور اقوام متحدہ کے 1977ء سے چلے آرہے یوم یکجہتی فلسطین نے فلسطینیوں کے لیے چند کمروں کے اندر ادا کیے جانے والے روایتی کلمات کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔

اسی طرح 57 مسلم ممالک بھی چند شہروں میں چند برادریوں یا زیادہ سے زیادہ لاکھ ڈیڑھ لاکھ افراد کے جمع کرلینے سے کچھ نتائج پیدا نہیں کرسکتے۔

اپنی تنومند افواج اور ان کی قیادتوں کی مہارت اور تجربے سے اگر فلسطینیوں کو کچھ ایسا نہیں دیا جاسکتا جو بامعنی ہو اور نتیجہ خیزی کا حوالہ بن سکتا ہو تو کم از کم غزہ کے سب باسیوں کے لیے اپنے وافر مالی وسائل اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے تو ضرور کچھ کیا جاسکتا ہے۔

کم از کم علامتی طور پر اپنے سفارت کاروں کی تعداد میں کچھ مستقل یا عبوری کمی کی صورت تو پیدا کی جاسکتی ہے۔

اسی طرح آج کے دن سے اسرائیل اور اس کے حامی ملکوں کی مصنوعات اور برانڈز کے بائیکاٹ ہی کی ایک منظم مہم حکومتی و عوامی شمولیت کے ساتھ شروع کی جاسکتی ہے۔

نیز اقوام متحدہ سے تھوڑی جانداری کے ساتھ اور طاقت کے متبادل عالمی مراکز کی حمایت کے ساتھ دباؤ ڈالا جاسکتا ہے کہ یکجہتی دکھانی ہے تو اسے اب محض زبانی کلامی رکھنے کے بجائے ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے سلسلے میں عمل کرکے دکھائے۔

اگر یہ سب نہیں کیا گیا تو دشمن کو کہنے کا موقع ملے گا مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہیں۔

یہ سطور جہاں 29 نومبر 1947ء کی یاد دلاتی ہے جب مسئلہ فلسطین کے مستقبل کے بارے میں ہونے والی ووٹنگ میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے گئے تھے۔

وہیں 24 نومبر 2023ء کو اسرائیلی فوجی کی غزہ پر وہ بمباری کبھی نہیں بھولیں گی جس نے اس کا انتساب اپنی دو سالہ بیٹی کی سالگرہ کے نام کیا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button